وزیراعظم عمران خان نے گیس بحران کی انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار قرار پانے کے بعد سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کے ایم ڈی حضرات کو برطرف کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کسی کی چوری‘ بدانتظامی کا خمیازہ عوام ہرگز نہیں بھگتیں گے بلکہ جس کا قصور ہے اسی کو سزا ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ فراہمی کے نظام میں گیس کی کمی ایک ہفتے میں پوری ہو جائے گی۔ کابینہ کی توانائی کمیٹی نے اس ماہ نئی پاور پالیسی لانے کی منظوری بھی دی ہے جبکہ توانائی کی 25سالہ سٹریٹجک حکمت عملی بھی ساتھ ہی وضع کی جائے گی۔ گیس بحران پر تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس بحران کی بڑی وجہ پاکستان گیس پورٹ پر ایل این جی ری گیس فکیشن ٹرمنل کی مرمت کے لئے دو ہفتوں کی بندش اور حکومتی ہدایات پر کھاد کارخانوں اور برآمداتی صنعتوں کو اضافی گیس کی فراہمی ہے۔ توانائی کمیٹی نے گیس کے زیاں کی شرح 13فیصد ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ بڑے پیمانے پر گیس ضائع ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال 50ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں توانائی کے تقریباً تمام وسائل گھریلو ضروریات کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ زراعت اور صنعت کا حجم گھریلو صارفین کی نسبت ابھی تک کم ہے۔ دوسری طرف پیٹرول‘ ڈیزل ‘ فرنس آئل ‘مٹی کا تیل‘ قدرتی گیس‘ بجلی ‘ جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی اور کوئلہ کی کھپت سے متعلق قابل بھروسہ اعداد و شمار تک دستیاب نہیں۔ وزارت توانائی اور اس کے ذیلی اداروں کی رپورٹس میں فرق معمول کی بات ہے۔ گزشتہ برس جنوری میں سابق حکومت نے نوید سنائی تھی کہ اس نے گیس کی کمی کا حل تلاش کر لیا ہے اور اگلے سال تک گیس بحران باقی نہیں رہے گا۔ بتایا گیا کہ ایل پی جی کے پرانے کوٹے ختم کر کے سندھ کے دور دراز علاقوں میں ایل پی جی گیس کے نئے پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ چترال میں تین گیس پلانٹ لگانے کی خوشخبری دی گئی۔ خیبر پختونخواہ کے وہ علاقے جہاں گیس لائن موجود نہیں وہاں ایل پی جی پلانٹ لگانے کا اعلان کیا گیا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بہت سے منصوبے اب تک فعال نہیں ہو سکے اور ایل این جی کی درآمد کو تمام مسائل کے حل کی کنجی قرار دینے کے باوجود متعلقہ اداروں میں بدانتظامی اور نااہلی موجود ہے۔ اسی بدانتظامی کی شکائت پر وزیر اعظم عمران خان نے 12دسمبر 2018ء کو سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کے ایم ڈی حضرات کے خلاف انکوائری کا حکم دیا تھا۔ گزشتہ ماہ حکومت کو تجویز پیش کی گئی تھی کہ سالانہ 56ارب روپے کے نقصانات پورے کرنے کے لئے گیس صارفین سے اضافی وصولی کی جائے۔ یہ نقصانات وصولیوں میں کمی اور گیس چوری کے ضمن میں ہیں۔ حقائق بتاتے ہیں کہ بااثر افراد اپنی صنعتوں اور پیداواری یونٹوں کو چوری کی گیس سے چلاتے ہوئے بارہا پکڑے گئے۔ ان لوگوں کو عموماً سیاستدانوں کی حمائت حاصل ہوتی ہے یا وہ خود سیاستدان ہوتے ہیں۔ محکمہ گیس کا عملہ یہ جانتے ہوئے کہ فلاں یونٹ گیس چوری میں ملوث ہے کارروائی نہیں کرتا۔ سالہا سال تک گیس کی یہ چوری جاری رہتی ہے اور پھر کروڑوں روپے کا بل مل ملا کر معاف کرا لیا جاتا ہے۔ محکمہ گیس کی طرف سے جب کبھی وصولیوں کی مہم شروع ہوتی ہے اس کی زدمیں چند سو یا کچھ ہزار کے بقایا جات والے وہ تمام صارفین آتے ہیں جو اپنے محدود وسائل کی وجہ سے گیس بل کی ادائیگی نہ کر سکے۔ ان لوگوں کو بل درست کرانے‘ بل دوبارہ جاری کرانے اور منقطع کنکشن بحال کرانے کے لئے طویل عرصہ جوتیاں گھسانا پڑتی ہیں۔ یہ صورتحال ملک کے وسائل پر بالائی طبقے کے قبضے اور پسماندہ طبقات کی محرومیوں کی علامت ہے۔ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کا رویہ بددیانت اور چوری میں ملوث افراد کے ساتھ ایک جیسا ہونا چاہیے ناکہ ہزاروں کے نادہندہ کو چور بنا دیا جائے اور کروڑوں اربوں کی گیس چوری میں ملوث افراد کو خصوصی پروٹوکول میں آرام دہ حراستی مراکز میں معزز قرار دے کر رکھا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس تجویز کو رد کر کے عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے کہ خسارہ صارفین سے وصول کیا جائے۔ سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کے ریکارڈ میں ان تمام افراد کے کوائف اور جرائم کی نوعیت موجود ہے جن کی وجہ سے ہر سال ریاست کو 50ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے‘ ستر برسوں سے یہی ناانصافی دیکھنے میں آئی کہ لوٹتا کوئی ہے اور نقصان کوئی پورا کرتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عام آدمی کی بہبود کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ ضروری ہے کہ گیس چوری یا نادہندگی میں ملوث افراد سے ایک خصوصی ریکوری مہم کے تحت واجبات وصول کئے جائیں۔ موسم سرما میں گیس کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس موسم میں گیس کے پورے سپلائی نظام پر ایک دبائو والی کیفیت ہوتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ گیس فراہمی کا نظام بلا تعطل کام کرتا رہے۔ اس صورتحال میں بعض افسران کے متعلق اس وقت شکوک کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے جب دو ہفتے کے طویل دورانیے کے لئے گیس ٹرمنل کو مرمت کے نام پر بند کر دیا جائے۔ گندم کو کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح حکومت ان صنعتوں کو گیس کی اضافی مقدار فراہم کرنے پر آمادہ ہے جو برآمداتی مال تیار کرتی ہیں مگر اس طلب و رسد کو توازن میں رکھنے کے لئے جو انتظامی لیاقت درکار ہوتی ہے وہ نہ سرکاری محکموں کے پاس ہے نہ حکومت کے پاس۔ چار ماہ ہو گئے وزراء کرام اب تک ماضی کا ماتم کر رہے ہیں۔ بیورو کریسی کی ہٹ دھرمی کا شور مچا رہے ہیں۔ یہ سب منصوبہ بندی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو کچھ توجہ اپنے وزراء کی کارکردگی پر بھی دینی ہو گی۔