وفاقی وزیر پٹرولیم سرور خان نے کہا ہے کہ گیس چوری روکنے کے لئے ریجن کی سطح پر تھانے قائم کئے جائیں گے۔ ملک بھر میں سالانہ 50ارب کے لگ بھگ گیس چوری ہوتی ہے۔ پاکستان میں گیس چوری کی شرح 13فیصد تک مقرر کی گئی ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح 4.52فیصد ہے۔ پنجاب میں گیس 7فیصد اور کے پی کے میں 4فیصد چوری ہوتی ہے۔ گیس کمپنیاں چوری روکنے میں ناکام ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ بجلی ہو یا گیس، چوری محکمہ کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں اس تاثر کو اس لئے بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پنجاب میں سب سے زیادہ گیس چوری انڈسٹریل شہر گوجرانوالہ میں نہ ہوتی۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گیس کمپنیوں کے اہلکار ہی سی این جی اسٹیشنز اور فیکٹری مالکان سے مل کر گیس چوری کرتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بیورو کریسی کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ جب دبائو کم کرنے کے لئے کمیٹیاں بنانے کا ڈھونگ کام نہ کرے تو حکومت کو ٹاسک فورس بنانے کا مشورے دے کر گمراہ کیا جاتا ہے۔ وزارت پٹرولیم میں گیس چوری روکنے کے لئے تھانے بنانے کی تجویز بھی ایسی ہی محسوس ہوتی ہے۔ تھانے بنانے سے اخراجات اور کرپشن کے حصوں میں تو اضافہ ہو سکتا ہے گیس چوری کم نہیں ہو سکتی۔ بہتر ہو گا حکومت گیس کی فراہمی اور بلنگ میں فرق کا ذمہ دار ریجن کے افسروں کو قرار دے تاکہ ان کو محکمہ کی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرکے گیس چوری روکنے کے لئے مزید اقدامات پر مجبور کیا جا سکے۔