اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)اوگرا صارفین کے حقوق کی بجائے گیس کمپنیوں اور شیئرہولڈرز کے مفادات کا محافظ بن گیا ہے ۔اوگرا نے پہلی مرتبہ گزشتہ5 مالی سالوں کیلئے 2اعشاریہ6فیصد چوری شدہ گیس کی مد میں 1ارب 11کروڑ روپے صارفین سے وصول کرنے کی منظوری دیدی ہے ۔ اوگرا نے مالی سال 13-2012تا 17-2016کے پہلے سے جاری شدہ عبوری فیصلوں کے تحت حتمی فیصلے میں یو ایف جی کی شرح 5فیصد سے بڑھا کر 7اعشاریہ 6فیصد وصول کرنے کی منظوری دی ہے ۔ حیران کن طور پر شیئرہولڈرز کو منافع فراہم کرنے کیلئے گزشتہ 5 سالوں کا بوجھ عوام پرڈال دیا گیا ہے ۔ چیئرپرسن اوگراعظمیٰ عادل خان اوربرطانوی شہریت کے حامل ممبرآئل عبداﷲ ملک نے منظوری دی۔ اوگرا کے ممبر فنانس نورالحق نے چیئرپرسن کے فیصلے کیخلاف انتہائی سخت اختلافی نوٹ لکھ دیا ہے ۔ ممبر فنانس اوگرا نورالحق نے اوگرا کے اس اقدام کو عوام کے حقوق کے منافی قراردیا ہے ۔ اوگرا کے فیصلے کے باعث 80ارب روپے کے اوگرا سکینڈل پر نیب ریفرنس خارج ہونے کا امکان ہے ۔ سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق نے یہ شرح ساڑھے 4فیصد سے بڑھا کر 7فیصد مقرر کی تھی۔ توقیر صادق کے اس اقدام کے خلاف نیب نے تحقیقات کرکے ریفرنس دائر کیا تھا۔ 92 نیوز کوموصول اوگرا دستاویز کے مطابق چیئرپرسن اوگراعظمیٰ عادل خان نے اوگرا کی ٹیکنیکل کمیٹی کی سفارشات کے برعکس فیصلہ کیا ۔ سندھ اور لاہور ہائیکورٹ نے گیس چوری کا اضافی بوجھ عوام پرڈالنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ ممبر فنانس نورالحق نے ا عظمیٰعادل خان کے گیس کمپنیوں اور انکے شیئرہولڈرز کو فائدہ پہنچانے کیلئے جاری فیصلے پر موقف اختیار کیا ہے کہ جب اتھارٹی نے یو ایف جی سٹڈٹی مکمل کی ،اس وقت پٹیشنرنے مالی سال13-2012سے مالی سال 2016-17 کے جائزہ کیلئے درخواست پیش کی۔اتھارٹی نے اس درخواست کو سنا اور اس کے بعد معاملے پر فیصلہ کیا۔اب اسی درخواست کو دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے جس میں مزید کوئی ثبوت نہیں اور کوئی منطق نہیں۔ پالیسی گائیڈ لائن کے تحت یو ایف جی الاؤنس یو ایف جی رپورٹ کے مطابق 2.6% ہے ،لیکن ماضی کی ایف آر آر کے مطابق یو ایف جی رپورٹ میں الاؤنس 2.6% تجویز نہیں کیا گیا ،اس لیے پالیسی گائیڈ لائن کے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ایجنڈے پر بحث کے دوران ٹیکنکل کمیٹی نے متفقہ طور اپنے پہلے والے فیصلوں کو برقرار رکھنے کی تجویز دی جو کہ یو ایف جی کنسلٹنٹ کی تجویز کے تناظر میں کی گئی جس کے تحت " اتھارٹی سوئی کمپنیوں کی کارکردگی کی بنیاد پر پرویژنل ایف آر آر بند کر سکتی ہے ۔2017 کے ایف آر آر کا پہلے سے موجود طریقہ کار کے تحت تشخیص کی جا سکتی ہے ۔یو ایف جی کنسلٹنٹ نے مالی سال 2017 کے ایف ایف آر کی بھی تشخیص کرنے کی تجویز دی جس کے مطابق پچھلے سالوں کیلئے بھی پہلے سے موجودطریقہ کار کو استعمال کیا جائے ۔کمپنیز کے مساوی(2.6%) الاؤنس کی درخواست جبکہ مختلف رقوم کے دعوؤں کی کوئی دلیل نہیں،جب کہ اتھارٹی کے پہلے کے فیصلوں میں دونوں کمپنیز کے ساتھ یکساں طریقے سے ڈیل کیا گیا اور انہیں دعووں پر ایک جیسی شرح دی گئی۔اگر کمپنیز کی مالی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے تو اس کی وجہ کمپنیز کی اپنی نااہلی ہے ، صارفین کی غلطی نہیں ۔