قومی سیاسی افق پر اگلے چند ہفتوں میں بہت اتھل پتھل ہونے جارہی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر کمر بستہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں سے مدد طلب کر رہے ہیں۔لمبی سیاسی بیٹھکوں کا سلسلہ چل پڑا ہے۔دوسری جانب پیپلزپارٹی 27 فروری کو مزار قائداعظم کراچی سے حکومت مخالف لانگ مارچ شروع کررہی ہے۔پی ڈی ایم بھی 23 مارچ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کرچکی ہے۔ خیبر پختون خوا میں 31مارچ کو بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ اختتام پذیر ہوگا۔اپریل میں پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کاڈول ڈالاجائے گا۔وزیراعظم عمران خان بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے نہایت ہی سنجیدہ ہیں اور پی ٹی آئی کی ازسر نو صف بندی کرنے میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔وہ منڈی بہاؤ الدین ، رحیم یار خان اور کئی ایک شہروں میں بڑے جلسوں سے بھی خطاب کریں گے تاکہ عوامی رابطہ مہم کو منظم شکل دی جاسکے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ سرگرمیاں اگلے عام الیکشن کی مہم کے قالب میں ڈھل جائیں گی۔ جہاںملک کی آبادی کا لگ بھگ ستر فی صد حصہ الیکشن کے عمل اور ماحول میں لگ بھگ داخل ہوچکا ہو وہاں عدم اعتماد کی تحریک لانے کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ نہ ہی احتجاجی تحریک عوام کی بڑی تعداد کو اپنی طرف راغب کرسکے گی۔ لوگوں کی بڑی تعداد ذہنی طور پر فی الحال بلدیاتی الیکشن کی تیاری میں مصروف ہے۔ یاد رہے کہ بلدیاتی الیکشن کی سیاست قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے بھی بڑا ماحول پیدا کردیتی ہیں۔ یہاں سے حلقہ کی سیاست کا رخ متعین ہوتاہے۔ علاوہ ازیں اپوزیشن جو خود چوں چوں کا مربہ ہے، اس کے پاس حکومت کی حلیف جماعتوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ پرویز الہٰی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔نواز شریف وزارت اعلیٰ پنجاب کا منصب انہیں سونپ نہ سکیں گے اور کم پر وہ راضی ہونے والے نہیں۔ ایم کیو ایم کے پاس بھی اچھی وزارتیں ہیں۔ مخلوط حکومتوں میں شکوہ شکایات چلتی رہتی ہیں۔بظاہر یہ سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں کہ وہ وزارتیں چھوڑ کرکسی ایسی مہم جوئی کا حصہ بنیں جس کے انجام کی کوئی کسی کو خبر نہیں۔ موجودہ حکومت عوامی توقعات پر اگرچہ اس طرح پورا نہیں اتر پائی جیسے کہ وہ چاہتی تھی یا جس کی خواہش وزیراعظم عمران خان کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بدعنوان اور کرپشن کا ہر راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ ا س کوشش میں انہیں بڑے سخت فیصلے بھی کرنے پڑے۔ کئی ایک قریبی دوستوں اور ساتھیوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔شوگر کے سیکنڈل میں جہانگیر ترین سے رائیں جدا ہوئیں۔ جنہوں نے پی ٹی آئی کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دی تھیں اور سیاسی حرکیات کا گہرا ادراک رکھتے ہیں اور اثر ورسوخ کے حامل ہیں۔اداروں میں ریفارمز لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ صحت کارڈ جیسا انقلابی نظام متعارف کرایاگیا تاکہ شہری علاج کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہوں۔یکساں نصاب تعلیم بھی ایک بڑا کارنامہ ہے۔ عمران خان کامتبادل کیا ہے؟پیپلزپارٹی اورنون لیگ کل تک ایک دوسرے کو کرپشن کا بادشاہ قراردیتی تھیں۔ انہوںنے ہر ملکی ادارہ تباہ کیا۔اب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ملک سدھارنے نکلی ہیں۔ان کے نامہ عمال میں لکھے ہیں: بے نامی اکاونٹس اور چھوٹے ملازمین کے نام پر یا ان کے ذریعے منی لانڈرنگ کے قصے۔ شہباز شریف کی ابھی تک محض سولہ ارب کی منی لانڈرنگ کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ سینکڑوں ایسی مزید ٹرانزیکشن ہوں گی جن کی کسی کوکوئی خبر نہیں۔ دنیا بھر میں وائٹ کالر کرائم تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ مغربی ممالک میں جدید ٹیکنالوجی،موثر عدالتی نظام ، قابل اعتماد تفتیشی سسٹم اور مضبوط بینکنگ نظام کے باوجود مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ تین برسوں سے حکومت کی کوششوں کے بعد بینکوں کا قابل بھروسہ نظام وجود پاسکا ہے۔عدالتی اور تفتیشی نظام میں ابھی بہتری کی بہت گنجائش ہے تاکہ فول پروف نظام تشکیل دیا جاسکے۔کمزور نظام کے باوجود اربوں روپوں کی کرپشن پکڑی جارہی ہے ۔اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ کرپشن کا ملک میںکیا لیول رہاہے۔ گزشتہ ادوار میں پاکستان کو منظم طریقہ سے دونوں ہاتھوں سے برباد کیاگیا ۔ اس بربادی کا ذمہ دار ٹولہ دوبارہ قوم کا نجات دہندہ بن کر سامنے آرہاہے۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستانی عوام ایک بار پھر ان کے ہاتھ میں اپنی کشتی کا چپو تھمائیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ساری جماعتیں مل کر تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے نکلی ہیں۔ اکیلے کسی بھی ایک جماعت میں اتنی طاقت یا عوامی مقبولیت نہیں کہ وہ کوئی بڑا جلسہ کرسکے یا لانگ مارچ۔ دوغلا پن ملاحظہ فرمائیں: اپوزیشن جو جمہوریت اور سویلین بالادستی کی علمبردار ہے‘ ترلے کررہی ہے کہ اس کے سیاسی ایجنڈے کی قومی سلامتی کے ادارے حمایت کریں تاکہ وہ ان کے گھوڑے پر چڑھ کر حکومت کے خلاف محاذ کھولے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ قومی سلامتی کے ادارے کسی بھی مہم جوئی کی حمایت نہیں کرتے۔قومی اداروں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ منتخب حکومت کی مدد کریں۔ اس کو کمزور کرنے والی کوششوںکا حصہ نہ بنیں۔ گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں نے حکومت کا ساتھ دے کر مثبت روایت قائم کی ہے جسے آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے۔پی ڈی ایم ہو یا پی پی پی انہیں چاہیے کہ وہ احتجاجی سیاست کے بجائے اب انتخابی سیاست کی طرف توجہ کریں۔ اگلے الیکشن کی صف بندی کریں نہ کہ غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے حکومت گرانے کے خواب دیکھیں۔تمام تر چیلنجز کے باوجود وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت اور سیاسی اپیل اپنی جگہ موجود ہے۔ پی ٹی آئی کی حمایت بھی اپنی جگہ قائم ودائم ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اگر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرلے تو وہ آسانی کے ساتھ دوسری جماعتوں کو بچھاڑ سکتی ہے۔ متبادل کی تلاش میں وہ شخصیات اور جماعتیں پیش کی جاتی ہیں جن سے بڑی محنت اور قربانی کے بعد جان چھڑائی گئی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں گیم از ناٹ اور جناب۔