عمران خان کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر گیم چینجر(Game Changer) ثابت ہوگی۔ خان صاحب کو شائد خود بھی اندازہ نہیں کہ اپنی پون گھنٹے سے زائد کی تقریر میں انہوں نے بیک وقت کئی اہداف حاصل کئے۔ کرکٹ میں کئی بار ہم نے دیکھا کہ کوئی بلے باز آیا،ایک دو اوورز ہی میں اس نے یوں پے درپے چھکے لگائے کہ میچ کا رخ بدل گیا۔اسی طرح کسی بائولر نے چند گیندوں میں یوںوکٹیں اڑائیں کہ ہارا ہوا میچ یکایک گرفت میں آگیا۔ 1992ء کا ورلڈ کپ ہماری نسل شائد کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ اس کے فائنل میچ میں وسیم اکرم کی وہ دو گیندیں کون بھول سکتا ہے ۔وہ گیندیں گیم چینجر تھیں۔ عمران خان کی تقریر پر جمعہ کی شام سے ہفتہ کی سہہ پہر( یہ کالم لکھے جانے تک )بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی وجہ سے بے شمار تبصرے ، تجزیے اگلے چند گھنٹوں میں سامنے آ جاتے ہیں۔ اس لئے تقریر پر کچھ زیادہ کہنے کی گنجائش نہیںرہی۔ کوئی شک نہیں کہ عمران خان بہت عمدہ بولے۔ماحولیات اور منی لانڈرنگ پر تو خیر انہوں نے بات کرنا ہی تھی، سلیقے سے کر دی۔ اصل کمال یہ کہ بڑی ہنرمندی سے اسلامو فوبیا کی نفی کی۔ مغربی انٹیلی جنشیا کے سامنے دلیل کے ساتھ یہ مقدمہ رکھا کہ توہین رسالت ﷺ کے واقعات پر مسلم معاشرے میں اتنا شدید ردعمل کیوں ہوتا ہے اور اس نزاکت کو سمجھنا چاہیے ، جیسا کہ ہم مسلمان ہالو کاسٹ کے حوالے سے مغربی سماج کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔توہین رسالت ﷺ کے حوالے سے پہلی بار کسی مسلمان لیڈر نے دلیل کے ساتھ جامع مقدمہ پیش کیا۔ عمران خان کو اس کی داد ملنی چاہیے کہ انہوں نے سرکار مدینہ ﷺ کے امتی ہونے کا حق ادا کیا اور وہ تقریر کی جوشائد کوئی بڑا عالم دین بھی نہ کر پاتا۔ کشمیر پر جس انداز سے وزیراعظم عمران خان نے کیس پیش کیا، اس سے بہتر ممکن نہیں۔ انہوں نے انسانی حوالوں سے المیہ کو بیان کیا، بھارت میں شدت پسند ہندوئوں کی بڑھتی قوت کے نتیجے میں جو تباہی آ سکتی ہے، بھارت اور دنیا بھر میں شدت پسندی کا طوفان آ سکتا ہے، اس کی نشاندہی کی۔کشمیریوں کی مظلومیت کو بار بار عالمی برادری کے سامنے بیان کیا۔عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے ساتھ جنگ سے گریز کی سوچ ،مگر مسلط ہونے کی صورت میں ہر انتہا تک جانے کی مجبوری بھی بتائی۔ نیوکلئیر آپشن کو واضح کیا ،مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ دھمکی یا نیوکلیئر بلیک میلنگ نہیں بلکہ ایک خدشہ، ایک پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ یہ سب بڑے مدلل، معقول اور علمی انداز میں پیش کیا گیا۔ ایسی کارکردگی پر نہ صرف دس میں سے دس نمبر ملتے ہیں، بلکہ تھپکی بھی حصے میں آتی ہے۔ ہم نے تو اپنی زندگی میں کسی پاکستانی سربراہ کو ایسی موثر تقریر کرتے نہیں دیکھا۔ میاں نواز شریف کمزور مقرر ہیں، گزرے آٹھ دس برسوں میں ان کی قوت فیصلہ اور حاضر جوابی مزید کمزور ہوئی، وہ پرچیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے۔ بعض اوقات تو یہ پرچیاں بھی کام نہیں آتی تھیں، وہ غائب الدماغی کی حالت میں گفتگو کرتے ہوئے خاموش ہوجاتے اورلفظ نہ مل پاتے۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو اگرچہ مہنگے برانڈڈ سوٹ پہننے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے، مگر تقریر ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان کا انگریزی لب ولہجہ بھی ایسا کہ سننے والا مسکرا اٹھے۔ زرداری صاحب بھی درمیانے سے کم درجہ کے مقرر ہیں۔جنرل ضیا الحق کے مداحین ان کی بعض تقریروں کی تعریف کرتے ہیں، جنرل صاحب لکھی تقریر پڑھتے ، کبھی اپنی طرف سے دوچار جملے بول دیتے مگر وہ شعلہ بیاں مقرر یا کرشماتی شخصیت نہیں تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی صورت میں ایک اچھا، تیز طرار، مستعد ذہن والا مقرر دیکھا تھا۔ بی بی آکسفورڈ سٹوڈنٹ یونین کی صدر رہ چکی تھیں۔وہ بہت رواں اور اچھا بولتی تھیں۔ مشہوربھارتی اینکر کرن تھاپر نے اپنی کتاب میں بے نظیر بھٹو کی بعض تقریروں اور آکسفورڈ، کیمبرج یونین کے مقابلوں میں حاضرجوابی سے مدمقابل کو لاجواب کرنے کے کئی واقعات لکھے۔ بی بی میں یقینا سپارک اور پوٹینشل تھا، تاہم مذہبی معاملات کے حوالے سے ان کا علم زیادہ نہیں تھا، محتاط بھی رہتی تھیں، مصلحتاً بھی شائد وہ مغرب کا بیانیہ مستعار لے لیتی تھیں۔ بی بی کا شمار ان مسلم نیشنلسٹ لیڈروں میں نہیں ہوتا جنہوں نے مغرب کے سامنے مسلم بیانیہ پیش کیا۔ بھٹو صاحب کی شہرت کرشماتی مقرر کی ہے۔ ہم نے ان کا دور نہیں دیکھا، انکی اکا دکا تقریر کی وڈیو سنی، البتہ ان کے مضامین اور تقریریں لکھی ہوئی پڑھی ہیں۔ بھٹو بیدار مغز ، غیر معمولی استعداد رکھنے والے لیڈر تھے۔ وہ پاکستانی نیشنلسٹ تھے ۔ مغرب کے سامنے ڈٹ کر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی عالمی فورمز پر کی گئی بعض تقریریں بہت مشہور ہوئیں۔ بھٹو صاحب مگر ایک سیکولر سوچ رکھنے والے لیڈر تھے ۔ ترقی پسندوں کو انہوں نے متاثر کیا، کسی حد تک ملک میںسوشلسٹ اصلاحات بھی کیں، مگر فکری طور پر وہ لیجنڈری ترک لیڈر مصطفیٰ کمال کی طرح اینٹی ملا،ماڈرن ، سیکولر، کنٹرولڈ اکانومی ماڈل پر یقین رکھنے والے شخص تھے۔بھٹو روایتی معنوں میں مذہبی نہیں تھے،اگرچہ قدرت نے ان سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے جیسا بڑا کام لے لیا۔وہ رائٹ ونگ مذہبی بیانیہ پر یقین رکھتے تھے نہ ہی اسے مغرب کے سامنے پیش کر سکے۔ عمران کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پہلی بار مغرب کے سامنے، عالمی فورمز پر ایک ایسا بیانیہ پیش کیا ہے جو اپنے اندر ماڈرن ، علمی دلائل اور ڈکشن سموئے ہونے کے ساتھ ساتھ رائٹ ونگ مذہبی حلقوں کے دلوں کی آواز ہے۔ ہمارے ہاں اس تقریر کو صرف پاکستان کے تناظر یا مسئلہ کشمیر کو نمایاں کرنے کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ بات صرف اتنی نہیں۔ عمران خان نے کشمیر کے ساتھ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی دل آزاری، ظلم کی بات کی۔انہوں نے سنی، شیعہ مسلم ورلڈ کی ترجمانی کی۔ وہ مقدمہ لڑا جسے کوئی ہاتھ لگانے کو تیار نہیں، جسے پیش کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہور ہی تھی۔ توہین رسالت ﷺ کے مسئلے پربیشتر مسلمان حکمران اور لیڈر مغرب کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں۔ عمران خان پہلے ایسے لیڈر ہیں جس نے غیر معذرت خواہانہ انداز اپنایا اور مغرب کو بتایا کہ مسلمانوں کا توہین رسالت پرشدید ردعمل نہیں بلکہ آپ کی سوچ، تصور غلط ہے، اسے تبدیل کریں۔ یہ وہ بات ہے جو آج مصر سے مراکش، پاکستان سے ترکی،خلیجی عرب ممالک سے صومالیہ اور سوڈان کے افریقی ممالک تک عام مسلمان سمجھتا اور سوچتا ہے۔ انگلینڈ، فرانس جیسے یورپی ممالک سے امریکہ تک کی نوجوان مسلمان نسل کے باغی عناصر میں یہی احتجاجی سوچ موجود ہے۔ داعش، القاعدہ، بوکوحرام اور دیگر شدت پسند تنظیمیں اسی سوچ اور اضطراب کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ عمران خان نے پہلی بار اس سوچ کو آواز دی اور اسے علمی بیانیہ میں تبدیل کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ کوئی مبالغہ آمیز تعریف نہیں۔ عمران خان کی داخلی پالیسیوں، ان کی ٹیم سلیکشن کے ہم نقاد ہیں، پچھلے کئی کالموںمیں ان پر تنقید ہوتی رہی۔ انہوں نے جو اچھا کام کیا، اس کی تعریف ہونی چاہیے ۔ عمران خان کی یہ تقریر گیم چینجر ثابت ہوگی۔ اگر وہ اپنے اس مقدمہ کا مناسب فالواپ کرتے رہیں تو میرا گمان ہے کہ مسلم دنیا میں ان کی مقبولیت اور پزیرائی بڑھے گی۔ امریکہ اور یورپ میں موجود پاکستانی تارکین وطن میں بھی ان کا اثرونفوذ پہلے سے زیادہ ہوجائے گا۔ اس تقریر نے انہیں پاکستانی وزیراعظم سے مسلم دنیا کے بڑے لیڈر میں تبدیل کر دیا۔ اندرون ملک اس تقریر سے ظاہر ہے کچھ زیادہ چیزیں تبدیل نہیں ہوں گی۔ عوام کے مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں، خان صاحب کو ریلیف دینے کا طریقہ ڈھونڈنا ہوگا۔ گڈ گورننس ہی واحد حل ہے، انہیں ٹیم میں تبدیلیاں لانے اور نظام میں اصلاحات لانے پر توجہ دینا پڑے گی۔مستقبل کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ جو سامنے ہے، اس بنیاد پر یہ لگ رہا ہے کہ عمران خان ابھی خاصے عرصے کے لئے کہیں نہیں جا رہے۔ اگرکہیں پر،کسی کے ذہن میں کچھ تھا بھی تو اس تقریر کے بعد وہ سب منصوبے تلپٹ ہوجائیں گے ۔ شاہ محمود قریشی پہلے ہی صفر سے تھوڑا سا ہی اوپر تھے، اب انہیں مائنس میں کہیں ڈھونڈنا پڑے گا۔ تحریک انصاف میں عمران خان ہی فیصلہ کن فیکٹر ہیں۔عمران اپنی اس تقریر کے بعد اب ’’کسی ‘‘کے لئے بیگیج نہیں رہے، وہ اثاثہ بن گئے ہیں۔ جسے بہت سے اہم معاملات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے، لاک ڈائون یا نام نہاد آزادی مارچ سے ہمیں تو خیر پہلے بھی کوئی توقع نہیں تھی، اس فیصلہ کن تقریر کے بعد مولانا کے مارچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسا کون ہو سکتا ہے جو عالمی فورم پر پاکستان، مسلم دنیا اور کشمیر کی ایسی موثر ترجمانی کرنے والے عوامی لیڈر کو ہٹانے کا سوچ سکے؟اپوزیشن کے سیاسی تابوت میںیہ تقریر شائد آخری کیل ثابت ہو۔ عمران خان اپنی غلطیوں سے ہی جائیں گے، انہیں یوں ہٹانا ممکن نہیں ۔ اس تقریر نے مگر خان صاحب کا بڑا سہارا دیا ہے۔ان کے سامنے امکانات کی وسیع دنیا نمودار ہوئی ہے۔ وہ اگر چاہیں تو اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں اپنے ناسمجھ ، سطحی مشیروں سے نکل کراہل علم سے مشاورت کرنا ہوگی۔