صدر ِمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک کمیشن رپورٹ میں اربوں روپے کے گھپلے کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستانی قوم کے ساتھ ’’گینگ ریپ‘‘ قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ہفتے بھر قبل صدرمحترم کا یہ اعتراف کہ گزشتہ دو سال میں کرپشن ماضی میں ہونے والی کرپشن سے بڑھی ہے۔ یقینا قابل ستائش ہے کہ عام طور پر وطن ِ عزیز میں خاص طور پر 1973ء کے بعد بننے والے صدور اپنی آئینی حدود کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے طاقت ور وزیر اعظم کے ہوتے ہوئے بھی پہلے ’’گرین لائن‘‘ پر ایوان ِ وزیر اعظم ہاؤس کو مطلع کرتے ہیں۔۔ ۔ کہ وہ کیاکرنے اور کیا کہنے جارہے ہیں۔ اسلام آباد کے سیاسی پنڈت اور حس ِ مزاح رکھنے والے سابقہ صدور کے مشیر ،سکریٹری تو نجی محفلوں میں یہاں تک بڑک مارتے ہیں کہ 1973ء کے آئین کے سبب Poor president ’’شاور‘‘ لینے سے پہلے بھی اطلاع کردیتا ہے کہ آدھے گھنٹے وہ کال نہیں سن سکے گا۔ محترم صدر ِ مملکت کا ’’ چوروں‘‘ کو گینگ ریپ کا ملزم یا مجرم قرار دینے پر وہ سارے گینگ ریپ یاد آگئے جومحض محاورے کی زبان میں اس ملک و قوم اور جمہوری حکومتوں کے ساتھ توکئے گئے ہی مگر۔ ۔ ۔اپنے پورے پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ جو بدنام ِزمانہ گینگ ریپ کئے گئے ، وہ بھی ذہن میں تازہ ہوگئے کہ جس نے اس وقت کی حکومتوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ویسے تو الحمد للہ اس حوالے سے بھی دیگر اقوام سے پیچھے نہیں۔ مگر بہر حال اس پر ضرور خوش ہولیتے ہیں کہ ہمارے شہر دِلّی کی طرح Rape Capitalنہیں کہلاتے ۔ جن بدنام ِ زمانہ یا مشہور ِ زمانہ گینگ ریپ کا میں ذکر کررہا تھا ،اُن میں ایک تو تحریک ِ پاکستان کے ممتاز مسلم لیگی رہنما سردار شوکت حیات کی ایک انتہائی قریبی رشتہ دار کا تھا جن میں کوئی اور نہیں ،اُس وقت کے صدر ِ مملکت غلام اسحاق خان کے داماد تک لپیٹ میں آگئے تھے۔اُن سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ پولیس افسر پکڑے بھی گئے۔ ۔ ۔ مگر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی نے اس کیس کا رُخ ایک ایسی جانب موڑ دیا کہ جس کا ذکر کرنے سے گُریز کروں گا کہ وہ اب مرحومین میں ہوگئے ہیں۔اصل یعنی rapistچند ماہ کی سزا کاٹنے کے بعد باعزت ضمانت پر رِہا ہو کر بہر حال بعد کے برسوں میں آزاد گھوما کئے۔ دوسرا کیس جس نے ملکی بلکہ بین الاقوامی شہرت حاصل کی وہ مختاراں مائی کیس تھا۔جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی مختاراں مائی کے مجرم پکڑے بھی گئے ۔چند کو سزائے موت کی سزا تک سنا دی گئی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ سزائے موت سے عمر قید اور پھر عمر قید سے باعزت ضمانت رِہا بھی ہوگئے۔ ہاں ،مختاراں مائی ضرور ایک افسانوی کردار بن گئیں۔ بڑے بڑے قومی و بین الاقوامی اعزاز سے نوازی گئیں۔کتابیں لکھی گئیں ۔۔ڈاکومنٹری بنی ۔ان دنوں اپنے علاقے میں غیر ملکی این جی اوز کے تعاون سے ایک مثالی اسکول چلا رہی ہیں۔ ان دونوں واقعات و سانحات کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ بصد احترام صدر محترم۔ ۔ ۔ جب گینگ ریپ کرنے والوں کو آپ کا آئین اور قانون قرار واقعی سزا نہیں دے سکا تو چوری چھپے چوری کرنے والے جو آپ کے ہاتھوں حلف اٹھا کر وزیر ،مشیر بنے اور آپ ہی کے وزیر اعظم کے آج آجو باجو بیٹھے ہیں تو۔ ۔ ۔ کس طرح یہ اپنی سزا کو پہنچیں گے؟ یقین کریں،یہ اپنی جگہ خود ایک بلین ڈالر سوال ہے۔ اس پر پہلے ہی ایک ’’سرد آہ‘‘کھینچ دیتا ہوں۔ کمیشن کی پونے چار سو صفحات پر مشتمل رپورٹ کو شائع کرنے کا بہر حال تحریک انصاف کی حکومت کو کریڈٹ دینا چاہئے۔اور اگر ،ایک نہیں کئی بار اگر یہ نامی گرامی چور جو ہفتوں سے شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز میں آج کی تاریخ تک بڑے طمطراق سے حکومت کے اندر باہر دندنانے پھررہے ہیں۔اگر واقعی پکڑے بلکہ لٹکادئیے گئے تو پاکستان اور اُن کی حکومت کے اس کارنامے کو سنہری حرفوں سے لکھے گی۔مگر مقطع میں پھر یہ سخن گُسترانہ بات کہ ۔ ۔ ۔ اب تک وطن ِ عزیز کو 446کمیٹیوں اور کمیشنوں کی رپورٹیں،اسٹیبلشمنٹ کے دفتروں کی الماریوں میں دیمک زدہ پڑی ہیں۔ مگر کسی ایک رپورٹ میں نامزد کردہ سزا نہیں پاسکا۔اور تو سب چھوڑ یں ،سقوط ِ ڈھاکہ کے ذمہ دار سابق صدر جنرل صدر یحییٰ خان کو سزا تو کیا ملتی ،ماشاء اللہ پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔جہاں تک اس کمیشن رپورٹ کا تعلق ہے تو اس کے مطابق 5 برسوں میں شریفوں اور زرداریوں کے فرنٹ مین جو اربوں روپے کمائے،اُس میں 5سال میں کوئی 22ارب روپے ٹیکس دئیے۔شوگر اور دیگر کاروبار وں میں اگر اس اعتبار سے موزانہ کیا جائے تو اسے قابل تحسین ہی قرار دیا جائے گا ۔ یعنی سال میں کوئی ساڑھے چار ارب،مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ 12ارب ٹیکس کی رقم دینے کے بعد ،دوسرے ہاتھ سے ریفنڈ کلیم کیا۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2017سے فروری 2020تک 723ارب روپے کی چینی فروخت کی گئی۔جس میں 517ارب کی چینی اُن افراد کو بیچی گئی جنہیں معروف اصطلاح میں بے نامی یا نامعلوم افراد کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینے اور پیٹ پھاڑ کر روپیہ نکالنے والی تحریک انصاف کی حکومت کے نمبر 2بلکہ جولائی 2018کے الیکشن میں پنجاب اور وفاق میں حکومت لانے والے ہمارے محترم کا نام سر فہرست ہے۔کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جب محترم جہانگیر ترین سے معلوم کیا گیاکہ آپ کے کھاتے ہیں جو 6ارب سے زائد پڑے ہیں،تو یہ رقم کہاں سے آئی۔ ۔ ۔ جواب آیا کہ یہ 6ارب کی رقم ان افراد کی ہے جنہوں نے ’’ایڈوانس‘‘ میں پیسے دئیے۔جب ان افراد کی فہرست کمیشن کو ملی اور اُن سے رابطہ کیا گیا تو سب کا ایک ہی جواب تھا:ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ ہم نے کب ،کس کو ایڈوانس رقم دی تھی۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو کالم پھر دستک دے رہا ہے کہ اس ہوشربا کہانی کے لئے اگلے ایک نہیں ،دو نہیں درجن کالم درکار ہوں گے ۔ ۔۔ کہ رپورٹ 374 صفحات پر مشتمل ہے۔مگر معذرت کے ساتھ چاہے کتنے ہی کالم سیاہ کرلئے جائیں،پیسہ تو ٹکا واپس نہیں آنا۔ ٭٭٭٭٭