فیصلہ ہوچکا تھاوہ بظاہر پرسکون تھا لیکن درحقیقت ایسا نہ تھا یہ بہت مشکل ٹاسک تھااسکا سامنا ان لوگوں سے تھا جنکی پشت پر بڑی طاقتیں تھیں اور اسے اس قوت سے ٹکرانا تھایوں سمجھ لیں کہ وہ براہ راست ان طاقتوں سے لڑنے جارہا تھا ،اسکے سپاٹ چہرے سے اسکے اندر کے اضطراب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا پھر اسکی تربیت بھی ایسی ہی ہوئی تھی اس میں جلد فیصلہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی کمال کی خوبی تھی لیکن اس وقت وہ کسی ٹریننگ سینٹر میںنہ تھا اسکے ساتھ ہزاروں زندگیاں وابستہ تھیں ،وہ باوردی جوان تھے جو اسکے اک اشارے پر کسی پر بھی قہر بن کر ٹوٹ پڑتے کسی بھی آگ میں کود جاتے کسی کی بھی جان لے لیتے اور اپنی جان بھی دے دیتے یہ سب جوان اسکی ذمہ داری تھے وہ پاک فوج کا ایک بہادراور زیرک جرنیل تھا اسکی چوڑی چھاتی پر سجا ونگ اسکی شناخت اسپیشل سروسز گروپ سے بتاتا تھا اسے جو ٹاسک دیا گیا وہ اس نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے قبول کیاتھا اسکے باوجود رات کے ڈھائی بجے فون کی گھنٹی بجی اس نے چونک کر فون کی جانب دیکھا اور جلدی سے فون اٹھالیا، اس فون پر بہت ہی خاص کالز آتی تھیں جنہیں کہیں سنا نہیں جا سکتا تھااس وقت بھی دوسری طرف فون پر آرمی چیف جنرل کیانی تھے ان کی بھاری آوازآئی ’’ہارون ! دیکھو یہ کر لوگے ناں ابھی بھی وقت ہے ‘‘ آرمی چیف کے اس سوال سے پریشانی اور تفکر جھلک رہا تھا ،جنرل ہارون اسلم نے انہیں مضبوط لہجے میں یقین دلایا اور پھر بتانے والے بتاتے ہیں کہ سوات کے مشکل ترین آپریشن میں تربیت یافتہ تحریک طالبان کے جنگجوؤں سے لڑنے کے لئے وہاں پہاڑ کی چوٹی پر ہیلی کاپٹر سے اترنے والا پہلا شخص کوئی اور نہیں جنرل ہارون اسلم تھا اور اس ہیلی کاپٹرکوسوات کی اس چوٹی پر پچھلے دوپہیوںپرلینڈ کراکر آدھا خلاء میں معلق رکھنے والا بھی کوئی عام ہوا باز نہ تھا بلکہ اس وقت کی آرمی ایوی ایشن کا جنرل آفیسر کمانڈر تھا جب جرنیل پہلی صف میں ہوں تو آخری صف کا سپاہی بھی شیر ہوجاتا ہے سولہ مئی سے پندرہ جولائی 2009ء تک ہونے والے اس آپریشن راہ راست میں سارے دہشت گرد راہ راست پر لا دیئے گئے یا ان کا صفایاہوگیا سوات کلیئر کر دیا گیا اس مشکل آپریشن کے بعد ایک بریفنگ میں جنرل ہارون اسلم نے بتایا کہ جب جوان دہشت گردوں کا صفایا کرتے ہوئے آگے بڑھے اور ملا فضل اللہ کی’’چھاؤنی‘‘ میں پہنچے تو حیران رہ گئے ان کے پاس بارود بنانے والی وہ جدیدترین لیبارٹری تھی جو ہمارے پاس بھی نہ تھی راقم نے یہ تمہید آپکو اسی جملے تک لانے کے لئے کھینچی ہے کہ سوات کے پہاڑوں میں اتنی جدید لیبارٹریاں کیسے اور کس نے کس کے تعاون سے بنائیں ،یہ سارا سامان کہاں سے آیا جو ایک منظم فوج کے پاس بھی نہ تھا؟ نومبر 2011ء میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ زیادہ پرانی بات نہیں نیٹو فوج کے ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی چیک پوسٹس کو گن شپ ہیلی کاپٹروں سے ادھیڑ ڈالاتھا لگ بھگ 25افسر اور جوان شہید ہوگئے تھے اسے فرینڈلی فائرنگ کا نام دے کر معذرت سے بھی انکار کردیاگیاالبتہ پاکستان کے شدید احتجاج اور سپلائی لائن روکے جانے پر امریکہ کی گردن سے سریا نکلا اور اس نے معافی مانگی ،ذرائع اس دوستانہ فائرنگ کا سبب انسانی غلطی نہیں بلکہ افغانستان کی سرحد سے دراندازوںکو روکنے کی ’’غلطی‘‘ بتاتے ہیں ۔ پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخ اس قسم کی غلطیوں اور اتار چڑھاؤسے بھری پڑی ہے ،پاکستان کا افغان جنگ میں کودنا بہت سوں کے نزدیک غلطی ہے ،اس ’’غلطی ‘‘ کی پاداش میں ہمیں تیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین ملے اور اب تو ان کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں یہاں پیدا ہونے والے افغان مہاجر یہاں بلاروک ٹوک کاروبار کر رہے ہیں ،اسلام آباد کی سبزی منڈی ہو یا کراچی کا سہراب گوٹھ ، فارسی بولنے والے افغانوں سے سب ہی کا رواسطہ پڑتا ہے آج بھی پاکستان میں ساڑھے چودہ لاکھ افغان مہاجر موجود ہیں پاکستان افغانستان میں دو سپر طاقتوں کے درمیان لڑی جانے والی اس لڑائی کے اثرات سے نکل نہیں پایاتھا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور ہمیں اس میں گھسیٹ لیااس سولہ سالہ جنگ میں ہمارا 123ارب ڈالر کا نقصان ہوا اورہمیں ملا کیا قسطوں میں روک روک کر چودہ ارب ڈالر اور’’do more‘‘ کا تقاضا،2018ء میں براؤں یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 65000پاکستانی اپنی جانوں سے گئے۔ یہ بات امریکہ بھی جانتا ہے کہ پاکستانی عوام میں اسکے بارے میں پرجوش نہیں پاکستانی عوام اپنے قابل اعتماد دوستوں میں امریکہ کو شامل نہیں کرتے بلکہ ایک بڑی تعداد تو امریکہ کو دوست تسلیم کرنے پر بھی معترض ہے ایسے میںاگر پاکستان امریکہ کی چاہ میں مزید دکھ سہنے سے انکار کرے تو یہ اسکا حق ہے ،پاکستان کے لئے پرامن افغانستان آکسیجن کی طرح ضروری ہے افغانستان میں بے امنی اور جنگ و قتال کی پاکستانیو ں نے بھاری مالی معاشرتی اورثقافتی قیمت چکائی ہے ہم کلاشن کوف اور ہیروئن سے ناواقف تھے یہ ’’تحائف‘‘ بھی ڈیورنڈ پار کے ہی ہیں جس طرح امریکی صدر افغانستان سے نکل کر وہاں لگنے والے ڈالر اپنی حدود میں خرچ کرنا چاہتا ہے ویسے ہی پاکستان کو بھی حق ہے کہ محفوظ سرحدوں میں اسکے کارخانے فیکٹریوں کی چمنیاں دھواں اور کھیت کھلیان غلہ اگلیں،یہاں دھماکے نہیں پارکوں میں بچوں کا شور اور بازاروں میں رونق ہو،موجودہ طالبان امریکہ معاہدے پرپاکستانی وزیر خارجہ کا یہ کہناکہ ہم اپنے حصے کا کام کرچکے مختصر مگر جامع ردعمل ہے انہوں نے بالفظ دیگر درست کہا ہے اب گیند دوسرے کورٹ میں ہے پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اسے کبھی بھی غیر اہم ہونے نہیں دے گی پھر پاکستان اکلوتی اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑتی رہے گی امریکہ کو پاکستان سے بنا کر رکھنا ہوگی اوراسکے لئے اسے اب زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنا ہوگا،واشنگٹن کوایف اے ٹی ایف،کشمیر پالیسی پراصولی واضح پوزیشن لینا ہوگی جیسے اس نے مشرقی تیمور کے لئے لی تھی،سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے خیرسگالی کا پیغام دینا ہوگا بدلتے افغانستان کے بعد امریکہ کو بھی اپنی سوچ بدلنا ہوگی کہ گیند اب امریکہ کے کورٹ میں ہے ۔