نئی نسل میں سے بہت کم لوگوں نے آغا حسن عابدی کا نام سن رکھا ہوگا۔ مال روڈ پر ایک ہوٹل ہوتا تھا انٹر کانٹی نینٹل۔ دوبئی سے ایک شیخ جب بھی پاکستان آتے اسی ہوٹل میں ٹھہرتے۔ پھر متحدہ عرب امارات میں تیل نکل آیا اور شیخ صاحب مالا مال ہوگئے۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے سوچا کہ اب کے بار جو شیخ صاحب آرہے ہیں ہوٹل میں ٹھہرنے تو ذرا اچھے انتظامات کیے جائیں۔ ہوٹل کی بیرونی لینڈ سکیپنگ میں پھول اور پودوں کا ایسا امتزاج بنوایا گیا کہ خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے۔ علی الصبح جب شیخ صاحب گھاس، کیاریوں، پھولوں اور تتلیوں کو دیکھ رہے تھے تو انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ صحرائوں میں ایسے پھول کھلائے جائیں۔ پوچھا یہ کس نے کیا ہے؟ جس نے یہ سب کیا تھا وہ لاہور کا ایک باسی تھا ۔ پرانے لاہورئیے اس پڑھے لکھے میاں عطاء کو شیخ صاحب نے پوچھا کہ دوبئی کے صحرا میں کیا ایسے پھول کھلائے جا سکتے ہیں؟ اندھے کو کیا چاہیے ؟دو آنکھیں۔ میاں صاحب نے فوراً حامی بھرلی کہ اُن کے والد باغبان تھے ۔ ویزے ، لیبر ، کھاد اور کنٹریکٹ ہوگیا اور میاں صاحب دوبئی پہنچ گئے ۔ پھر میاں صاحب ، شیخ زید بن سلطان النہان کے اتنا قریب ہوگئے کہ شیخ صاحب جب بھی لاہور ہوتے میاں عطاء اُن کے ہمراہ ہوتے۔ شیخ صاحب اُن دنوں پاکستان آئے تو پاکستان کے دو ممتاز بینکاروں نے اُن سے ملاقات کا وقت مانگا ۔ ایک حبیب تھے ، حبیب بینک کے مالک اور دوسرے آغا حسن عابدی تھے یوبی ایل کے مالک۔ ہوٹل کی لابی میں دونوں انتظار کرتے رہے اور غالباً شیخ صاحب بھول گئے ۔ حبیب صاحب اُکتا کر چلے گئے اور آغا حسن عابدی بیٹھے رہے ۔ پھر دوبئی میں یو بی ایل قائم ہوگیا۔ اُس وقت پاکستان کے صدر ایوب خان تھے۔ صدرِ پاکستان نے شیخ زید کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔ جب تقریب شروع ہوئی تو خیال آیا کہ شیخ صاحب کے لیے تحفے کا اہتمام تو کیا ہی نہیں گیا ۔ اس وقت بازار سے یہ سب کرنا ممکن نہ تھا ۔ ایوب خان اس پر پریشان ہوگئے ۔ آغا حسن عابدی نے اپنی بیش قیمت گھڑی پیش کردی ۔ ایک دفعہ جب شیخ صاحب پاکستان تشریف لائے تو نیو کیمپس کی نہر سے گزرے ۔ اس وقت ان کے ساتھ آغا حسن عابدی اور میاں عطاء اُن کی لیموزین میں اُن کے ہمراہ تھے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے طلباء سڑک پر تھے اور گاڑیوں کو روک رہے تھے ۔ شیخ صاحب نے سوال کیا کہ یہ طالب علم گاڑیوں کو کیوں روک رہے ہیں؟ اس سے قبل کہ آغا حسن عابدی کوئی جواب دیتے ، میاں عطاء بول اٹھے اور کہنے لگے ’’وہ احتجاج کر رہے ہیں کہ ہم سب طالب علم اتنی بڑی تعداد میں یہاں پڑھتے ہیں ، ہاسٹلز میں بھی رہتے ہیں مگر ہمارے علاج معالجے کے لیے یہاں کوئی ہسپتال ہی نہیں ۔ میاں عطاء کے اس پاکستانی جھوٹ پر آغا صاحب مسکرا کر رہ گئے۔ شیخ زید نے اس جھوٹ کو سچا جانا اور ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم پاکستان سے بات کی اور یوں شیخ زید ہسپتال بن گیا۔ آغاز حسن عابدی لکھنؤ میں 1922ء میں پیدا ہوئے ،انگریزی ادب اور قانون کی ڈگری حاصل کی اور بینکنگ کا شعبہ جوائن کرلیا ۔ آغا صاحب چن چن کر بڑے ناموں کو اپنے بینک میں لاتے تھے ۔ عبید اللہ علیم اس وقت ایک ہر دلعزیز شاعر تھے اور اُن کی کچھ غزلیں زبان زدِ عام تھیں۔ نورجہاں اور مہدی حسن نے اُن کی ایک غزل گائی ۔۔۔تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ تو اُن کی شہرت گلی کوچوں تک پھیل گئی۔ ایک دن آغا صاحب نے عبید اللہ علیم سے کہا کہ آپ میرا بینک بی سی سی آئی جوائن کرلیں ۔ دونوں ہی جانتے تھے کہ شاعرانہ طبیعت کے علیم صاحب کو بینکاری کی الف ب بھی نہیں آتی مگر پھر بھی آغا صاحب نے آفر کردی۔ شاعر نے بینکر سے تنخواہ پوچھی ، وہ توقع سے زیادہ تھی ۔ پھر اوقات کار پوچھے تو وہ بھی شاعر کی توقع سے زیادہ تھے۔ علیم صاحب لکھنؤی لہجے میں بڑی نستعلیق اردو بولتے تھے۔ آغا صاحب کو مخاطب کیا اور کہنے لگے ’’آپ تنخواہ میں جو روپے دے رہے ہیں وہ تو ٹھیک ہیں مگر آپ ان کو خرچنے کا وقت نہیں دے رہے‘‘ آغاصاحب اس جملے سے بڑے محظوظ ہوئے اور دیر تک مسکراتے رہے ۔ لاہوری ارائیں میاں عطاء اور آغا حسن عابدی کی دوستی تا زندگی قائم رہی ۔ بی سی سی آئی نے دنیا بھر کے بینکاروں کو چونکا دیا ۔ الطاف گوہر صاحب آغا صاحب کی تھرڈ ورڈ فائونڈیشن کے روح رواںتھے اور افتخار عارف صاحب لندن اُردو مرکز بورڈ کے کرتا دھرتا ۔ آغا صاحب دن رات تیسری دنیا اور پاکستان کے لیے معاشی معاونت کر رہے تھے ۔ بینکنگ کی دنیا کی عالمی اسٹیبلشمنٹ کو ایک مسلمان پاکستانی بینکار کی یہ اُڑان اور اٹھان پسند نہ آئی ۔ امریکن یہودی لابی کا ساتھ ہندوئوں نے دیا ۔ امریکی ادارے سی آئی اے نے کچھ ایسا کھیل رچایا کہ بی سی سی آئی دیکھتے ہی دیکھتے ڈوب گیا ۔ آغا صاحب نے زندگی کے آخری ایام کراچی میں گزارے ۔ میاں عطاء انہیں اکثر ملنے جاتے اور دونوں بیتے دنوں کی یادوں کو یاد کرتے۔ میاں عطاء نے پیپلز پارٹی کی 88ء والی حکومت میں یوبی ایل خریدنے کی کوشش صرف اس لیے کی کہ اس بینک کی یادیں آغا صاحب سے وابستہ تھیں۔ حکومت سے ڈیل چل رہی تھی ، غالباً 2.4 ارب کی ڈیل تھی ۔ بات تقریباً فائنل تھی کہ حکومت چلی گئی ۔ پھر اسے مشرف دور میں پرنس نواف اور بیسٹ وے گروپ آف لندن نے مل کر خریدا ۔ میاں عطا ء صاحب پرانے اور پکے لاہورئیے تھے ۔ شیخ زید جو گاڑیاں انہیں گفٹ کرتے وہ لاہور لے آتے ۔ پرانے لاہور میں اُن کی گاڑیاں دیکھنے بڑے بڑے لوگ آتے۔ یہ ہوتی تھیں ، رولز رائس ، کیڈ لاگ لیموزین ، مرسیڈیز بینزاور ہونڈا Pulloot وغیرہ ۔ اُن کا بیٹا سمیر عطاء اللہ ہمارا کلاس فیلو تھا اس لیے میاں صاحب سے ملاقاتیں کثرت سے رہتیں ۔ کبھی کبھی گزرے وقت کی یادوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ اُن سے فرار ناممکن ہو جاتا ہے۔