بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے بھارت لوٹے تو انہیں ایسا لگا جیسے وہ جنگ جیت کر آئے ہوں۔ انہوں نے لاہور میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ ممبئی حملوں کے ذمہ دار پاکستان میں آزاد پھر تے ہیں۔ ان کے اس بیان پرکچھ لوگوں نے آسمان سینگوں پر اٹھایا۔جاوید اختر کے بیان پر دونوں ممالک میں سامنے آنے والے ردعمل سے ظاہر ہوتاہے کہ نغمہ نگار، شاعر، فنکار یا سیاست دان سب ہی سستی شہرت اورداد وتحسین کے دلدادہ ہیں۔ جاوید اختر ایک اچھے نغمہ نگار ہیں۔ کئی بار گلزار صاحب نے بھی ان کے فن کی تعریف کی۔شاعر، اداکار، ادیب اور کھلاڑی عمومی طور پرمحبت اور امن کے پرچارک ہوتے ہیں۔تلخیاں کم کرتے ہیں۔ جذبات بھڑکاتے نہیں بلکہ محبت کے گیت الاپتے ہیں۔ ہمارے خطے میں گنگا الٹی بہتی ہے۔پاکستان اور بھارت ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔جہاں سے نکلنے کی سیاسی قیمت چکانے کے لیے دہلی اور اسلام آباد میں کوئی تیار نہیں۔اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وزیر اعظم شہباز شریف نے متعدد بار مفاہمتی بیانات جاری کیے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی۔ مضبوط معیشت اور دستیاب عالمی حمایت نے بھارت کو حوصلہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ جامع سفارتی تعلقات یا مذاکراتی عمل کی بحالی پر اس وقت تک آمادہ نہ ہو جب تک پاکستان اس کی شرائط تسلیم نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں بھارتی اسٹرٹیجک ماہرین کے مطابق پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بحالی میں فی الحال انہیں کوئی قابل ذکر فائدہ نظر نہیں آتا۔ دہلی والوں کے خیال میں سیاسی طور پر منقسم، انتہا پسندوں کے ہاتھوں زخم خوردہ، معاشی طور پر خستہ حال اور بین الاقوامی سطح پر کمزور ساکھ کا حامل پاکستان بھارت کو کچھ دینے یا اس کا کچھ بگاڑنے کے قابل نہیں۔ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کا پاکستان کے ساتھ حل بی جے پی کی ملکی سیاسی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان کے ساتھ مسلسل دشمنی اور مقبوضہ کشمیر میںجاری رکھا گیا جارحانہ انداز بی جے پی کی سیاسی ضروریات کو پورا کرتاہے خاص کر اسے اپنا روایتی ووٹ بینک برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ بھارت صلح کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دے گاوزیراعظم شہباز شریف مسلسل تعلقات کی بحالی کے بیانات جاری کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ یا تو بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے بارے میںاس کے عزائم اور منصوبوں کا ادراک نہیں کرتی پھر وہ مقابلہ کرنے کی ہمت کھوچکی ہے۔ متضاد اور کنفیوژ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان نے حال ہی میں کشمیر کاز کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کے تین تاریخی مواقع گنوائے ہیں۔ مثال کے طور پر 5 اگست 2019 کے بعدجب بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کیداخلی خود مختاری پر شب خون مارا تو کئی ماہ تک کشمیر میں کرفیونافذرہا۔ بیرونی دنیا سے اس کا رابطہ منقطع ہوچکا تھا۔ بھارت کو اس اقدام اور خطے میں کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کشمیر کو عالمی میڈیا کی بے مثال توجہ حاصل ہوئی۔ برطانوی، فرانسیسی، نارویجن اور یورپی یونین کی پارلیمانوں نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات پر شدید تنقید کی جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، امریکی کانگریس کی کمیٹی اور او آئی سی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اس کے نتیجے میں سیاسی مخالفین اور میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کی دوٹوک انداز میں مذمت کی۔ کشمیری تارکین وطن لندن اور نیویارک کی سڑکوںپرنکل اور دنیا تک اپنی آواز پہنچائی۔ تاہم حکومت پاکستان اس موقع سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی۔ دوسرا موقع پاکستان کو اس وقت ملا جب اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے 2018 اور 2019 میں خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال کی تحقیقات کے لیے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف تک رسائی مانگی۔بھارت نے نہ صرف ان دونوں رپورٹوں کو مسترد کیا بلکہ اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں خصوصی مشن بھیجنے کی اجازت بھی نہ دی جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شفاف تحقیقات کرنی تھیں۔ بھارت کا طرزعمل قابل فہم تھا لیکن پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔اس طرح یہ تاریخی موقع ضائع ہوگیا۔ اقوام متحدہ کے نمائندوں کے دورے سے مسئلہ کشمیر کو بے پناہ عالمی پذیرائی مل سکتی تھی اور بھارت دباؤ پڑسکتاتھا۔ تیسرا موقع پاکستان کو اس وقت ملا جب چین نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کے حق میں جاندار موقف اختیارکیا۔ سلامتی کونسل میں 5 اگست کے بعد کشمیر کے حالات پر بھی آواز اٹھائی۔ بعدازاں لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ شدت اختیار کرگیاجو 2022 کے آخر تک رہا۔ اس بحران نے پاکستان کو بھارت پر دباؤ بڑھانے کا موقع دیا لیکن کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کو بیک چینل مذاکرات کے قریب میں ایسا الجھایا کہ اس نے سارا قیمتی وقت خفیہ مذاکرات میں گزار دیا۔جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی اشیرباد سے ہونے والے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا بلکہ وہ بھارت کے ساتھ ’’اسٹیٹس کو‘‘تسلیم کرنے پر آمادہ ہوچکے تھے۔ اس دوران کشمیر پر جاری عالمی مہم میں نمایاں کمی آگئی۔ جنرل باجوہ کی ٹیم نے کشمیر کی آزادی کی تحریک پشت پناہی کے بجائے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی بحث شروع کرادی۔ آزاد کشمیر کو حاصل انتظامی اور مالی اختیارات کم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں جو وقتی طور پر پس منظر میں چلی گئی ہیں لیکن کسی بھی وقت دوبارہ منظر عام پر آسکتی ہیں۔ حکمرانوں کی غلط سوچ اور مبہم پالیسیوں نے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔بھارت نے اس دوران بغیرکسی خوف یادباؤ کے مقبوضہ کشمیر میں 1000 سے زائد قوانین تبدیل کرکے خطے کی معاشی، سیاسی اور انتظامی ہیت ہی بدل ڈالی۔ لاکھوں بھارتی شہریوں کو کشمیر کی شہریت دی جو آئندہ اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالیں گے اور بی جے پی کو مسلم اکثریتی حلقوں سے اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں مدد کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے خفیہ مذاکرات کے دورانیے کا بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کو کچلنے اور میڈیا پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے 2022 کی رپورٹ میںلکھا: "اگست 2019 سے کشمیر میں کم از کم 35 صحافیوں کو پولیس سے پوچھ گچھ، چھاپوں، دھمکیوں، جسمانی حملوں، نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیوں،یا من گھڑت مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے"۔ حکومتیں یکے بعد دیگر بھارت کو سفارتی اور سیاسی سطح پر موثر جواب دینے میں ناکام رہی ہیں۔چین، ملائیشیا، ترکی اور قطر کے سوا کسی بھی ملک نے کشمیر پر قابل ذکر لب کشائی تک نہیں کی۔ پاکستان کے روایتی اتحادی سعودی عرب تک نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پاکستان ایک واضح کشمیر پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہا ہے جو بھارت کو پسپائی اختیار کرنے یا اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے