معزز قارئین!۔ کل 11 جولائی 2019ء کو اپنی طرز کے منفرد شاعر اور دانشور حضرت قتیل ؔشفائی کی 18 ویں برسی تھی۔ مَیں نے 92 نیوز چینل پر قتیل صاحب کی شاعری اور شخصیت کے بارے میں ایک پُر مغز اور معلومات افزاء پروگرام دیکھا تو، مجھے بقول شاعر … آئی جو ، اُن کی یاد ، تو آتی چلی گئی! قتیل صاحب ایک بھرپور زندگی گزار کر 11 جولائی 2001ء کو خالق حقیقی سے جا ملے تھے ۔ اُس روز مَیں ’’ آگرہ سربراہی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے صدر جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے نئی دہلی میں تھا ۔ شریکِ سفر حکومت پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر اشفاق احمد گوندل صاحب نے مجھے بتایا کہ ’’ قتیل شفائی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ‘‘ ۔پھر یہ خبر نئی دہلی میں پاکستان کے "Media Center" میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود صاحب تک پہنچی اور سارے پاکستانی دوستوں تک ۔ مَیں وطن واپس آیا تو ، ’’قتیل شفائی کی یاد میں ‘‘ کے عنوان سے 21 جولائی 2001 ء کو روزنامہ ’’خبریں ‘‘ لاہور میں میرا کالم شائع ہُوا۔ آج مَیں اپنے اُس کالم کو بھی یاد کر رہا ہُوں ۔ میرا قتیل صاحب سے محبت کا گہرا رشتہ تھا ۔ جناب قتیل شفائی سے میری پہلی ملاقات 1965ء میں سرگودھا میں ہُوئی تھی ۔ وہ وہاں مشاعرہ پڑھنے گئے تھے ۔ 1971ء میں مَیں نے لاہور سے ’’نیم سیاسی اور نیم ادبی ‘‘ ہفت روزہ ’’ پنجاب‘‘ جاری کِیا ۔ ’’پنجاب‘‘ کا دفتر کوپر روڈ پر تھااور اُس سے کچھ فاصلے پر قتیل شفائی صاحب ’’پاکستان رائٹرز گلڈ ‘‘ (مغربی پاکستان) کے سیکرٹری کی حیثیت سے رونق افروز ہوتے تھے ، پھر میرا اُن کے دفتر اور اُن کا میرے دفتر آنا جانا شروع ہوگیا۔ اکثر قتیل صاحب اور اُن کے دوست رحیم گل اور مَیں میرے دفتر میں ایک دوسرے کے ساتھ دوپہر مناتے ۔تین چار ماہ تک ہفت روزہ ’’ پنجاب‘‘ میںجنابِ قتیل شفائی کا ادبی / فکاہی کالم شائع ہوتا رہا۔ جس کا عنوان تھا ’’آدھا کالم قتیل شفائی کا ‘‘ ۔ پھر ہم اپنی اپنی زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے دُور ہوتے گئے ۔ اچانک 1981ء سے میرے دوست ’’ بابائے گلاسگو ‘‘ (اور پھر ’’ بابائے امن‘‘ ) ملک غلام ربانی ، قتیل شفائی صاحب سے میری دوستی کی تجدید کا باعث بن گئے۔ اکتوبر 1984ء میں اُن کے بیٹے عرفان ربانی کی شادی لاہور میں میاں محمد سعید (ڈیرے والے ) کی بھانجی ثمینہ سے ہُوئی۔ لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ولیمہ تھا ۔ قتیل شفائی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ تُسیں مُنڈے والے ہو ، یاں کُڑی والے؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ’’ پہلاں مَیں مُنڈے والا ساں ، پر عرفان دے ویاہ مگروں ہُن کُڑی والا وِی ہوگیا واں‘‘۔ پھر گلاسگو میں بھی میری قتیل شفائی صاحب سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ دراصل قتیل شفائی صاحب کے دو بیٹے پرویز قتیل ، نوید قتیل اور ایک شادی شدہ بیٹی مُسرت بھی گلاسگو میں "Settle" تھے ۔ مُسرت بی بی کے شوہر (رونق ِ محفل ) شوکت بٹ کا 4 سال پہلے انتقال ہو چکا ہے ۔ قتیل شفائی "Self-made" تھے ، اُن کے والد فیروز خان لاکھوں روپے چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہُوئے جو ، اُن کے رشتہ داروں نے اُن کی والدہ سے ہتھیا لئے تھے ‘‘ ۔ قتیل صاحب کی عمر اُس وقت صِرف 16 سال تھی ۔ قتیل صاحب نے عملی زندگی کا آغاز ہری پور ہزارہ میں میونسپل کمیٹی کے محرّر کے طور پر کِیا ۔ وہ 24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ ہی میں پیدا ہُوئے تھے ۔ ان کے بزرگ اکوڑہ خٹک سے ہری پور آئے تھے ۔ اورنگ زیب ؔخان ۔ قتیل صاحب کا اصل نام تھا ۔ ’’ قتیل صاحب نے بتایا تھاکہ ’’ قتیل حضرت عیسیٰ کا صفاتی نام ہے ۔ وہ شفا بھی دیتے تھے ، جب مَیں محرم میں مجلسوں میں نوحے پڑھتا تھا تو وہاں ’’ قتیل فرات‘‘ کی اصطلاح بہت استعمال ہوتی تھی، چنانچہ مَیں نے قتیل ؔتخلص رکھ لِیا اور مَیں اُستاد حکیم یحییٰ شفا خان پوری کی نسبت سے ’’قتیل شفائی‘‘ ہوگیا ۔ قتیل شفائی نے تحریک پاکستان میں بھی حصہ لِیا ۔ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم سے قبل جلسوں میں اپنی نظمیں ترنم سے سناتے ۔ پھر مولانا شوکت علی ، مولانا حامد بدایوانی اور نواب بہادر یار جنگ کی تقریریں ہوتیں ۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگیوں کی لوٹ مار سے قتیل صاحب بے حد دُکھی ہُوئے اور مسلم لیگ سے ہمیشہ کے لئے تعلق ختم کرلِیا۔ قتیل صاحب کو حکومت پاکستان سے تمغہ حسن کارکردگی ملا لیکن، اُن کا پہلا اعزاز یہ تھا کہ ’’ اُنہوں نے پاکستان میں بننے والی پہلی فلم’’ تیری یاد‘‘ میں گیت لکھے ، پھر اُنہوں نے 250 سے زیادہ پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گانے لکھے۔ بھارتی فلموں کے گیت لکھنے کا جواز پیش کرتے ہُوئے قتیل صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’ مَیں پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے بھارتی فلموں کے گیت لکھتا ہُوں ۔ وہ میری اہمیت اور میری وساطت سے پاکستان کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور اگر وہاں میری کمائی کا ذریعہ بنتا ہے تو زرمبادلہ پاکستان ہی میں آتا ہے ۔ "Charity Fund"میں تو نہیں چلا جاتا ؟ ‘‘۔ جناب قتیل شفائی کے انتقال پر بھارت کے شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں نے بھی از حد افسوس اور دُکھ کا اظہار کِیا۔ نئی دہلی اور آگرہ کی مختلف تقاریب میں قتیل صاحب کا چرچا رہا۔ قتیل صاحب کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہُوا ، خاص طور پر ہندی میں ۔ بھارت کی کئی یونیورسٹیوں میںقتیل شفائی کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی ہوتی ہے ۔ قتیل صاحب کی 20 کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ سب کی سب ان کے فلم لائن میں آنے کے بعد شائع ہُوئیں ، وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ یہ کمال ہے میرا کہ مَیں نے ہمیشہ ادب کو اہمیت دِی ہے ، جبکہ مجروح سُلطان پوری ، ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی ، جاں نثار اختر اور دوسرے فلمی شاعر فلمی دنیاہی کے ہو کر رہ گئے تھے ۔ مَیں فلمی شاعری کے بجائے ادبی شاعری کو اہمیت دیتا ہُوں‘‘۔ قتیل صاحب علاّمہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہُوئے اور پھر احمد ندیم قاسمی صاحب سے ۔ اُنہوں نے بتایا تھا کہ ’’ جب مَیں لاہور آیا تو زندگی میں نئے تجربات آئے اور نئے رنگ، جب مَیں نے اپنے تجروں میں شاعری کی تو میرا الگ رنگ بنتا گیا‘‘۔ قتیل صاحب کا منفرد رنگ ہی ان کی شہرت اور عزت کا باعث بنا۔ قتیل شفائی نے اپنی شاعری میں پسے ہُوئے طبقوں کے دُکھ درد کو موضوع بنایا اور خاص طور پر وہ عورت جو فلم سٹوڈیو میں موجود ہے وہ ایکڑ، ایکٹریس اور ہیروئن سبھی کو مظلوم سمجھتے تھے ۔ وہ شاعر کو بھی مظلوم ہی سمجھتے تھے ۔ کہا کرتے تھے کہ ’’ ہمارے ملک میں شاعر کا وہ مقام نہیں ہے جو ، دوسرے ملکوں میں ہے ۔ دراصل ہمارے یہاں شاعر کا مقام بننے نہیں دِیا جاتا اور اِس کا حق خدمت پورا ادا نہیں کِیا جاتا‘‘۔ قتیل شفائی غریبوں کے حق میں انقلاب برپا ہوتے دیکھنے کی خواہش لے کر چلے گئے ، اِس یقین کے ساتھ کہ ایک نہ ایک دِن یہاں قائد انقلاب پیدا ہوگا لیکن، اِس سے قبل بقول ان کے ، غریب کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوگا اور بالائی طبقہ کے لوگوں کے سر۔ مارچ 2000ء میں اُن کا شعری مجموعہ ’’گفتگو‘‘ ساتویں بار شائع ہُواتواپنے پروگرام کے مطابق وہ اسلام آباد تشریف لائے ، انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن (موجودہ چیئرمین پیمرا) پروفیسر محمد سلیم بیگ اُنہیں میرے گھر لے آئے ۔ مَیں نے بھی کئی دوستوں کو مدعو کرلِیا۔ قتیل شفائی صاحب نے مجھے اپنے دستخطوں سے ’’گفتگو‘‘ کے ایک نسخے سے نوازا اور اُس میں لکھا تھا کہ ’’ پیارے اثر چوہان کے لئے ، محبت کے ساتھ۔ قتیل شفائی ‘‘۔ پھر مجھے معلوم ہُوا کہ ’’پروفیسر محمد سلیم بیگ کی تو ، بہت پہلے ہی قتیل صاحب سے نیاز مندی ( دوستی ) ہے‘‘ ۔ ایک دِن پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ ، قتیل صاحب کو اور مجھے اپنے ساتھ مری کے سیر سپاٹے پر بھی لے گئے تھے ۔ قتیل شفائی ایک کامیاب زندگی گزار کر اِس دارفانی سے عالم جاودانی کو سُدھار گئے ہیں ، لیکن اپنی شاعری کے ذریعے ’’اپنے لاکھوں چاہنے والوں سے ’’گفتگو ‘‘کرتے رہیں گے ، جب تک سورج چاند رہے گا‘‘۔