سرائیکی زبان کے عظیم شاعر سئیں احمد خان طارق کی تیسری برسی کی تقریب 9 فروری کو ان کے آبائی گاؤں میں منائی جا رہی ہے ۔ تقریبات کا سلسلہ پورے وسیب میں کئی دنوں تک جاری رہے گا۔ آپ کی وفات 10 فروری 2017ء کو ہوئی شاہ صدر دین میں ہونیوالی تقریب کا اہتمام آپ کے صاحبزادے پروفیسر شبیر ناز جو کہ خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں نے کیا ہے ۔ سئیں احمد خان طارق کے فن ، فکر اور شخصیت پر بات کرنے سے پہلے میں ان کے پس منظر کے بارے میں عرض کروں گا کہ سندھ کنارے بستی شاہ صدر دین میں 1924ء کو بخش خان کے گھر پیدا ہونے والے عظیم شاعر سئیں احمد خان طارق نے 1945ء میں شاعری شروع کی اور اپنا استاد سئیں نور محمد سائل کو بنایا ۔ سئیں احمد خان طارق نے آخری وقت تک بہت مضبوط اور خوبصورت شاعری کی ۔ عموماً نوجوان شاعر پرانی باتیں کرتے ہیں لیکن ہمارے اس درویش صفت اور قلندر مزاج شاعر نے حوصلے اور ہمت والی باتیں کی ، وہ آخری وقت تک ہر وسیبی کو اپنے ہونے کا شعور د یتے رہے ۔ ان کی تصانیف میں گھروں در تانْی ، طارق دے ڈٖوہڑے ، متاں مال ولے ، میکوں سی لگٖدے ، ہتھ جوڑی جُٖل، بٖیٹ دی خوشبو ، عمراں دا پورہیا ، سسی ، میں کیا آکھاں شامل ہیں ۔ کسی بھی خطے کی ادبی اور ثقافتی پہچان اس کی شاعری ہوتی ہے، روز اول سے لے کر آج تک ساری دنیا میں شاعری کو بہت اہم مقام حاصل ہے ۔سچی بات ہے کہ شاعری تہذیب بھی ہے ، ثقافت بھی اور تاریخ بھی ۔ اس وجہ سے شاعر کو مورخ اور شاعری کو تاریخ کہا جا تاہے، سرائیکی شاعری کی تاریخ صدیوں پرانی نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے ، سرائیکی دھرتی نے بڑے بڑے شاعر پیدا کئے ، ان میں ایک بڑا نام احمد خان طارق بھی ہے ۔ سئیں احمد خان طارق کی شاعری سرائیکی وسیب کے لوگوں سے بات چیت ، میل ملاپ کی سچی پہچان ہے ۔ میں تو کہوں گا کہ صرف ان کی شاعری نہیں ، وہ خود بھی سرائیکی کی طرح میٹھے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وسیب سے شاعری کے ساتھ ساتھ ان کو ذاتی طور پر بھی لوگ بہت زیادہ چاہتے تھے ۔ سرائیکی زبان کے لفظ شہد کی طرح میٹھے ہیں، اس میں محبت اور درد مندی ہے ، اس میں عاجزی انکساری ہے ، اس میں لذت ہے ، اس کے لفظ کپاس کی طرح نرم ہیں ۔ یہ ہمارا دعویٰ ہے اگر کوئی ایسے دعوے کی دلیل مانگے تو پھر ہم احمد خان طارق کی شاعری دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ۔ یہ بات میرے تجربے میں آئی ہے کہ ادب کی دنیا میں لوگ خواجہ فرید کو خواجہ فرید اور احمد خان طارق کو احمد خان طارق سمجھتے ہیں ۔ یہ کچھ لوگوں کے مسائل ہیں ‘ مسئلہ بنانے والوں کے خود اپنے مسائل ہوتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں مسئلہ بنانے والے ختم ہو جائیں گے پر خواجہ فرید اور احمد خان طارق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔کیا یہ سچ نہیں کہ احمد خان طارق خواجہ فرید کے سامنے اپنی نیاز پیش کر کے اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیا ؟ دوسری طرف خواجہ فرید بھی جاگیردار مزاج شاعر یا تنگ دل مُلاں نہ تھا کہ اس نے کبھی کہا ہو کہ مجھ جیسا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ اچھی شاعری ، اچھا شعر کوئی بھی کسی بھی وقت کہہ سکتا ہے ، جو لوگ ’’ حد ‘‘ لگاتے ہیں وہ جہالت اور ملائیت کا شکار ہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی تو خواجہ سئیں نے فرمایا تھا کہ ’’ مُلاں نہیں کہیں کار دے ‘‘ ۔ سئیں احمد خان طارق کا ڈوہڑہ ’’ میڈٖا پیر فرید آ پُھل لکھ ڈٖے ‘‘ خواجہ فرید کے حضور بہت بڑا نذرانہ ہے ۔ پر یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ، ایک قطعہ دیکھیں ۔ گُھنڈ وچ ہے سئیں گھوٹ مٹھنْ دا میڈٖا ووٹ اے ، ووٹ مٹھنْ دا طارق ڈٖوہیں مِٹھڑے لگٖدن جھوک مٹھنْ دی ، کوٹ مٹھنْ دا دنیا کے ہر شاعر نے مذہبی تنگ نظری اور فرقہ پرست مُلاں کے خلاف بات کی ہے، صوفی شاعر بابا بلھے شاہ سئیں ، سچل سرمست سئیں ، اس طرح سئیں احمد خان طارق نے بھی اس موضوع پر بات کی ۔ میں نے جن بزرگ شاعروں کے نام لئے ہیں ان کے کلام میں ملائیت بارے جو بات کی ہے وہ سو فیصد سچ ہے پر بات کرنے کی دھر کچھ سخت ہے ۔ مذہبی تنگ نظری اور فرقہ واریت بارے سئیں احمد خان طارق نے جو بات کی ہے ، مطلب بالکل وہی ہے ، آپ فرماتے ہیں : اساں کلہیاں پڑھ پڑھ انج رہ گٖے جُٖل کہیں دے کول نماز پڑھوں ہتھ بٖدھ بھانویں ہتھ کھول پڑھوں اے پھول نہ پھول نماز پڑھوں ہتھ تسبیح مسجد رقص کروں پا گٖل وچ دول نماز پڑھوں جتھاں طارق دڑکے نہ ہوون اوہا مسجد گٖول نماز پڑھوں تاریخ میں سرائیکی وسیب کو سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سر زمین بھی کہا گیا ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ سندھ کے مالک صرف صوبہ پختونخواہ، یا سندھ کے ہیں تو یہ بات سوفیصد غلط ہے ، سندھ دریا کی ملکیت کے دعوؤں سے ہٹ کر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ دریاؤں کا نام سرائیکی وسیب اور سرائیکی وسیب کا قدیم نام وادی سندھ ہے ۔ سندھ کو سرائیکی وسیب سے سرائیکی وسیب کو سندھ سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے کنارے رہنے والے اور اس کا پانی پینے والے سندھ کی طرح بڑی سوچ اور بڑے فکر کے مالک ہوتے ہیں ۔ سئیں احمد خان طارق نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ مظلوم طبقے کی بات کی ۔ انہوں نے ادب کو اشتہار نہ بنایا۔ انہوں نے چڑیا کو مثال بنا کروسیب کے کمزور اور مظلوم لوگوں کو بہت بڑا پیغام دیا ، یہی پیغام در اصل اپنے وسیب اور اپنے لوگوں کیلئے ہے ۔ چڑیاں اٹھو کوئی دھاں کرو چپ نہ کرو چپ نہ کرو ہتھ وچ جے کوئی ہتھیار نی چیں چیں کرو چاں چاں کرو