ترقی یافتہ اور با شعور دنیا کا دیرینہ دستور ہے کہ وہاں جب بھی کوئی مرض یا مسئلہ سر اٹھاتا ہے ، اس سے آنکھیں نہیں چرائی جاتیں بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے سب سے پہلے اس سے چھٹکارے کی کوئی وقتی تدبیر کر کے متاثرہ افراد کا فوری علاج یا ہنگامی امداد کی جاتی ہے۔ پھر متعلقہ محکمے اور ذمہ دار ادارے حرکت میں آتے ہیں اور ٹھوس تحقیق کے ساتھ اس مسئلے یا مرض کے مستقل تدارک کا کوئی پکا پِیڈا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ بقیہ قوم یا آنے والی نسلوں کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کثیر زرِ مبادلہ خرچ کر کے نہ صرف نئی سے نئی ویکسینیں ایجاد کی جاتی ہیں بلکہ اسے متاثرہ لوگوں یا علاقوں تک پہنچانے کا باقاعدہ اور باوقار اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مختصر سی تاریخ پہ بھی نظر کر لیں تو کتنی ہی بیماریوں ، آزاریوں کا انھی فارمولوں یا اصولوں کی روشنی میں تیار کردہ ویکسینوںکی مدد سے قلع قمع کرنے کی مثالیں ہمارے سامنے قطار اندر قطار آن موجود ہوں گی۔ ماضی میں چیچک نے سر اٹھایا یا ملیریا کی دہشت پھیلی، رنگ برنگ ٹیکے گولیاں ہمارے سکولوں تک پہنچ گئیں۔ طاعون کا چرچا ہوا یا پولیو نے شب خون مارا، باضمیر دنیا نے خطروں سے آگاہی یا قطروں کی فراہمی کا باقاعدہ حق ادا کیا گیا۔ پھر زمانۂ حال ہی کو دیکھ لیجیے بد تمیز ڈینگی اور بد لحاظ کرونا نے کیا کیا تباہی نہیں مچائی۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ بازار، کاروبار، تعلیمی ادارے، ہوائی اڈے، مساجد، حتیٰ کہ خانۂ خدا تک بندش کے جبر میں مبتلا ہوئے۔ لاک ڈاؤن دنیا کے ہر فرد کے لیے لازمی مضمون بن گیا۔ ان تمام تر اَلمیوں کے باوجود ہم محض باتیں بناتے رہ گئے ، کسی طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر الزام الزام کھیلتے رہے اور دُور پار کے لوگ تریاق لے کے آ گئے۔ہم لاتوں اور باتوں کے وہ بھوت ہیں جن کی بابت کسی سیانے نیپہلے ہی کہہ رکھا ہے: تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مُردہ شود ۔ ہماری ڈھٹائی پروف سرشت اور جمود پرست جبلّت سے کون بشر آگاہ نہیں کہ ہم پوری شدت کے ساتھ سُنّی، دل و جان کی گہرائیوں سے شیعہ، مکمل استقامت کے ساتھ وہابی تو بن گئے۔ اسی طرح ہمارے رَج کے رانے، بھَج کے ارائیں،گَج وَج کے جٹ ہونے میں بھی کسی ذی نفس کو کوئی شک نہیں۔ پھر ہم سرائیکی، سندھی، لڑنے مرنے کی حد تک پختون، مہا کاریگر قسم کے مہاجر اور لبرل شبرل بھی پوری قوت کے ساتھ ہیں لیکن کسی نے کبھی اس بات پہ غور کیا کہ اس سب کچھ کے باوجود ہم آج تک نہ اچھے انسان بن سکے ہیں، نہ مثالی مسلمان اور نہ ہی قابلِ رشک اخلاقیات ہمیں چھُو کر گزری ہے۔آج اگر دنیا ہمیں، ہمارے ہی دین کے بتائے ہوئے اخلاقی، سماجی، معاشی ضوابط پر ہم کو پرکھے تو ہم شاید سَو میں سے صفر نمبر حاصل کرنے کے بھی قابل نہ نکلیں!!! حکومت کی ہر طرح کی معاونت اور میڈیا کے پُر زور اصرار اور خطرات سے آگاہی کے باوجود ابھی تک ہم ان خوف ناک جسمانی بیماریوں کی مفت میں میسر ویکسین مکمل نہیں کر پائے۔ سچ پوچھیں ابھی تو ہمیں دنیا سے خصوصی درخواست کر کے کام چوری، ملاوٹ، جیالے پن، تعصب، توہم پرستی (جسے ہم نے دل کی تسلّی کے لیے غیرت کا نام دے رکھا ہے) گندگی، بے ایمانی، جھوٹ، تاخیری حربوں، مرنے جینے سے متعلق فضول رسوم و رواج، جہیز، برات، لاقانونیت، بے عمل تصوف، نام نہاد تعلیم، منافع بخش اکیڈمیوں، جعلی ادویات، دولت کی ہوس، پلاٹ پرستی، جعلی اکاؤنٹوں، جھوٹی جمہوریت، بریانی طلبی، فضول انتخابات، وکیلوں کی بدمعاشی،ٹریفک کی پابندی، روڈ سینس اور سب سے بڑھ کے جہالت کی ویکسین بھی ڈھونڈنی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کائنات کا سب سے بڑا جرم جہالت ہے، جسے ہم بغیر کسی ضمیر کی خلش کے مسلسل اور پورے اعتماد سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے علم کی برکتوں کی بجائے ’’رٹّا سٹّا‘‘ سسٹم سے بھرے پڑے ہیں۔ دینی ادارے خیالی جنت کے حصول کے تصور میں دنیا کو جہنم بنا دینے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ اس دین کے نام پر، جس نے ہم جیسوں کو ’’ قالو سلاما‘‘ کے تمغے کے ساتھ چودہ سو سال پہلے ہی فارغ کر دیا تھا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شاعرِ مشرق نے یہ شعر سری لنکن، بھوٹانی یا نیپالی قوم کے لیے کہا تھا : وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود خدا کی قسم اقبال نے یہ اور اس طرح کے سینکڑوں مصرعے ہم نام نہاد مسلمانوں کو ہماری اوقات یاد دلانے کے لیے کہے تھے کہ: تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ… تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا… تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟… تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے؟… تمھارا فقر بے دولتی و رنجوری… تُو اپنی خودی کو کھو چکا ہے… تُو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن… تُو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟… تُو سمجھتا نہیں اے زاہدِ ناداں! اِس کو… آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ جس قوم کا دین اخلاقیات کے ستونوں پہ قائم ہو، اس کے نام لیوا معاشرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہو۔ جن کے لیے قرآن جیسی عظیم کتاب میں دودھ اور شہد کی برکات بیان کی گئی ہوں، انھی کے ملک میں ان دونوں اشیا کی خالص شکل دیکھنے کو آنکھیں ترس جائیں۔ جس ملک میں بائیس لاکھ مقدمات انصاف کی راہ دیکھتے دیکھتے بینائی کھو بیٹھے ہوں اور جہاں انسانی جان بچانے والے اداروں میں لاکھوں بوگس کالیں ریکارڈ پہ ہوں، ان کی صورتِ حال لالہ بسمل کے اس قطعے ہی سے بیان ہو سکتی ہے: ترقی کی خاطر ہیں درکار ہم کو امانت ، دیانت ، صداقت ، ذہانت مِرے چار جانب ہے قبضہ جمائے جہالت ، جہالت ، جہالت ، جہالت