مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے 4 چینلز کے اشتہارات روکنے سے متعلق اپنی آڈیو کے درست ہونے کا اعتراف کر لیا، مریم نواز نے آڈیو میں 92نیوز، اے آر وائی ، سما اور 24 نیوز کو اشتہار نہ دینے کا حکم دیا تھا، سوال یہ ہے کہ جہاں اعتراف کر لیا گیا ہے تو وہاں محترمہ مریم نواز اپنے لئے کوئی سزا بھی تجویز کر لیتیں یا پھر کم از کم یا پھر کم از کم متاثرہ چینل سے پر معافی ہی مانگ لیتیںتاکہ کچھ اخلاقی بھرم رہ جاتا۔ محترمہ کی حق گوئی پر ’’خراج تحسین ‘‘پیش کرتے ہوئے ملک کے معروف صحافی ارشاد احمد عارف نے اپنے کالم ’’طلوع‘‘ میں بجا طور لکھا کہ یہ شاید اعترافات کا موسم ہے ، مریم نواز شریف اس صاف گوئی پر داد کی مستحق ہیں ، یہ جرأت آج تک کسی سیاستدان نے نہیں دکھائی ، خود ہی مان لیا کہ میاں ن واز شریف کے دور اقتدار میںمیڈیا ہائوسز کو سرکاری اشتہارات وزیر اطلاعات پرویز رشید یا سیکرٹری اطلاعات نہیں ، محترمہ کی مرضی سے ملتے اور بند ہوتے تھے ۔ جواز یہ پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل چلاتی تھیں اور میڈیا سیل ہی یہ طے کرتا کہ کون سا میڈیا ہائوس سرکاری اشتہارات کا حق دار ہے ، کون نہیں ۔ اس صاف گوئی کے بعد یہ سوال بر محل ہے کہ ایک غیر منتخب خاتون کس حیثیت سے سرکاری فنڈز میڈیا ہائوسز میں مرضی سے تقسیم کرتی تھیں ؟ ۔ 1962ء کے عشرے سے سرکاری اشتہارات پر زارت اطلاعات کی اجارہ داری ہے اور ہر سول و فوجی حکمران نے سرکاری فنڈز کو حلوائی کی دکان سمجھ کر دادا جی کی فاتحہ پڑی ہے۔ صحافت کے خلاف یہ پہلا وار نہیں تھا بلکہ ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے ، صحافیوں کیخلاف انتقامی کارروائیوں کی لمبی داستان ہے۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تاریخ کو صحافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت ہی حیران کن واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1857 ء کی جنگ کے بعد بدیسی حکمرانوں نے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ قلم کی آزادی پر بھی حملہ کیا اور آزادی کیلئے لکھنے والے اخبار اور رسائل بند کر دیئے۔ گو کہ اس زمانے میں اخبار زیادہ شائع نہیں ہوتے تھے لیکن بدیسی حکمرانوں کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ’’فارسی اخبار ‘‘ بھی برداشت نہ ہوا اور اسے بھی بند کیا جو کہ 1841 ء میں شروع ہوا تھا، اور اس میں محض سرکاری نیوز لیٹر وغیرہ جاری ہوتے تھے۔ بند ہونے والے اخبارات میں مولانا حسین احمد آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا 1836 ء میں شائع ہونیوالا اردو اخبار، سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کا 1837 ء میں شروع ہونے والا ’’ سید الاخبار ‘‘ بھی شامل تھا۔1857 ء میں آزادی صحافت اور اخبارات پر سب سے بڑا حملہ بدیسی حکمرانوں نے کیا ، اس کے ٹھیک ایک سو ایک سال بعد یعنی 1958 ء میں آزادی صحافت پر اس سے بھی بڑا حملہ ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں کیاگیا۔ جس کے باعث پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار اور سپورٹس وغیرہ پر رات کی تاریکی میں کمانڈو ایکشن کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا، صحافیوں پر تشدد ہوا اور حکومت نے ان اخبارات کو اپنے غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا، جبر کے باعث ان اخبارات اور اداروں کی کیفیت بیگار کیمپ کی مانند ہو گئی، کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی حق حاصل نہ تھا، کام کرنے والے صحافیوںکو ڈیلی ویجز مزدورسمجھاجانے لگا۔ صحافیوں اور ملازمین نے اس پر احتجاج کیا ، ان کے دباؤ پر 1964 ء میں ایک خودمختار ادارہ ’’ نیشنل پریس ٹرسٹ ‘‘ قائم کیا گیا ، اس میں ملازمتوں کے رولز تو طے ہوئے ملازمین کے معاشی مسئلے بھی حل ہوئے لیکن آزادی صحافت عنقا رہی، ایوب خان کے دور میں بھٹو تحریک کے خلاف سب سے زیادہ ’’ نیشنل پریس ٹرسٹ ‘‘ کے اخبارات نے لکھا، بھٹو صاحب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی اس ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق آئے، صحافیوں نے ضیا کے مارشل کو خوش آمدید نہ کہا اور پھر انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں،یہ ادارے بہت کمزور اور قریب المرگ ہو گئے۔ جنرل ضیا الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف نے 1997 ء میں ٹرسٹ کے اخبارات کو پرائیوٹیائز کر دیا، لیکن ٹرسٹ کے مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی قانون سازی نہ کی گئی،جس کے باعث کھربوں کی جائیداد ضائع ہو گئی اور آج بھی ہو رہی ہے اور ملازمین بھی رُل گئے البتہ امروز لاہور اورپاکستان ٹائمز کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کر دیا گیا مگر سرائیکی وسیب سے امتیازی سلوک ہوا اور امروز ملتان کے ملازمین آج بھی دھکے کھا رہے ہیں اور بہت سے ملازمین بیماری ، بڑھاپے اور غربت کے باعث بغیر علاج سسک سسک کر مر گئے ۔ پہلے وقتوں میں اخبار یا رسالے مختصر چھپتے تھے، آج کی ٹیکنالوجی کی سہولتیں حاصل نہ تھیں ، ان دنوں ہاتھ کی کتابت کیلئے مسطر ہو تے تھے، پیلے رنگ کی سیاسی سے خطاط ہاتھ سے کتابت کرتے، لیتھ مشین پر چھپائی ہوتی، سیاہی بننے میں کوئی کمی رہ جاتی یا پھر پلیٹ میکر پلیٹ میکنگ میں کوئی غلطی کر دیتا تو پھر کتابت بھی ضائع ، پلیٹ بھی ضائع، نئے سرے سے کتابت اور نئے سرے سے پلیٹ میکنگ ، بہت مشکل دور تھا، پھر ٹریڈل مشینوں پر نسخ رسم الخط میں کمپوزنگ کا دور آیا، کتابیں وغیرہ اس میں شائع ہونے لگیں ، کچھ اخبار اور رسالے بھی شائع ہوئے ، رومن کیلئے تو یہ سسٹم ٹھیک تھا مگر نستعلیق اردو قاری کی نظروں میں اس کی جگہ نہ بن سکی۔اس کے بعد آفسٹ مشینوں کا دور آیا،بڑے اخباروں میں خطاط شفٹوں میں کام کرتے تھے، پھر دور تبدیل ہوا ، پاکستانی اخباری صنعت میں کمپیوٹر پروگرام نوری نستعلیق متعارف ہوا ، آج نت نئی ٹیکنالوجی، سبک رفتار 4 کلر مشینیں ، کلر پرنٹر اور کلر سیکنرز غرض آج پاکستانی صحافت ترقی یافتہ ممالک کے ہم قدم ہے، لیکن اخبارات کا بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو جانا جدیدیت نہیں ، اصل جدیدت رحجانات کا نام ہے ۔آج جہاں صحافیوں کو کام کرنے کی سہولتیں ہیں ، آنے والے کل میں وہ مشینیں بھی آر ہی ہیں جو محض کمپیوٹر کے آرڈر پر طباعت کے تمام مرحلے خود کار سسٹم کے تحت طے کردیں گی، زمانہ بدل گیا ہے ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں تبدیلی اور انقلاب آ چکا ہے، حکمرانوں کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہئے اور میڈیا کی آزادی کا ہر صورت احترام ہونا چاہئے۔