استادِ محترم جناب ڈاکٹر سجاد باقر رضوی جو اپنی طرز کے ایک منفرد شاعر، نقاد اور استاد تھے، زمانی و زمینی حالات پہ گہری نظر رکھتے تھے، وہ اکثر ایک شعر سنایا کرتے تھے: ہمیں جو بھی دشمنِ جاں ملا، وہی پختہ کارِ جفا ملا نہ کسی کی ضرب غلط پڑی ، نہ کسی کا وار خطا گیا اُس بے فکری کی طالب علمانہ زندگی میں ہمیں یہ شعر کسی کا ذاتی المیہ محسوس ہوتا تھا لیکن جیسے جیسے شعور کے ہیولے نے دھیان کی سیڑھیوں سے زینہ زینہ اترنا، وجدان کے پرندوں نے عملی زندگی کی فضا میں پر پُرزے نکالنا اور حالاتِ ناظرہ پہ جمی نظروں نے حالاتِ حاضرہ کا تعاقب شروع کیا ، ویسے ویسے یہ شعر اپنی معنویت کی حدود اور تاثیر کا دائرہ وسیع کرتا چلا گیا۔ دوستو! اب تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ شعر نہیں، بلکہ اس بد قسمت ملک کی عبرت انگیز تاریخ ہے۔ اس کرماں ماری دھرتی کی مستقل تقدیر ہے۔ اس بے توقیر خرابے کی خوف ناک تصویر ہے۔ بچپن میں جو سنا کرتے تھے کہ خاندانی لوگوں کا وقت بدلتا ہے، معیار نہیں اور بد نسلوں کی قسمت بدلتی ہے، اوقات نہیں۔ اب تو اس حقیقت کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے مسلسل پروان چڑھتے دیکھا اور محسوس کیا ہے ۔ اس ہچکولے کھاتی اَون پون صدی میں کتنے ہی لوگ وطنِ عزیز کی خدمت، سرحدوں کی حفاظت ، انصاف کے بول بالے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کا خوش نما بیانیہ لے کے آئے اور بھولے بھالے عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر اپنی رزقِ مشکوک پہ اِتراتی نسلوں کو ضرورت سے بھی زیادہ پروان چڑھا کر چلتے بنے۔ ملکی خزانہ بار بار خالی ہوا، غربت اور مہنگائی برے دنوں کی طرح مسلط رہی، غیر ملکی قرضے سر چڑھ کے بولتے رہے لیکن ان کے ملک سے باہر سیوریج کے مین ہولوں اور خوفناک اژدہوں کے جبڑوں کی مانندکھلے اکاؤنٹوں کا غلیظ پیٹ بھرنے میں نہ آیا۔ایک زمانے میں ناصر کاظمی نے احساس دلایا تھا کہ: چند گھرانوں نے مل جل کر کتنے گھروں کا حق چھینا ہے باہر کی مٹی کے بدلے گھر کا سونا بیچ دیا ہے اب تو وہ گھرانے بھی چند سے دوچند بلکہ کئی چند ہو چکے ہیںلیکن اس بنجر معاشرے میںلوٹ مار کی نشان دہی کرتی ان کی یہ پکار صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ اب بھی وطن کے بعض نمک خوار، آنکھوں میںروشنی کے سپنے مسلسل سجائے رکھنے والے ڈھائی ٹوٹرو، اچھے مسقبل کی آس میں دم توڑتے، منظر بھوپالی جیسے چند حسّاس لوگ اپنی اس مترنم سوچ کا برملا اظہار کرتے ملتے ہیں کہ: مجھ کو اپنے بنک کی کتاب دیجیے دیش کی تباہی کا حساب دیجیے لیکن دوستو! جس دیش میں حساب دینے، حساب کرنے اور حساب رکھنے والے اگر مگر مچھ ایک ہی دھرم، ایک ہی ڈگر اور ایک ہی صفحے پہ ہوں، وہاں حساب کا نہیں صرف روزِ حساب کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ اس پل پل نڈھال اور بے حال ہوتے ملک کے غریب عوام نے ان پچھہتر سالوں میں خائن سیاست دانوں، توند پرور علما اور طوطا مارکہ میڈیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ ان زعما کی ایک نسل ابھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی کہ اس سے بھی زیادہ بے حِس، بد زبان، بجٹ چُوس، عیاش اور ضرورت سے زیادہ پلی پوسی پیڑھی، اِک مُکی چُک لَے دُوجی تیار والے کھیل کی طرح تیار کھڑی ہوتی ہے۔ برسوں کی عیاری اور خجل خواری سے اب یہ صورت ہو چکی ہے کہ جو حکمران عوام کی دلداری اور جمہوریت کی دعوے داری میں کم از کم روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ ہی لگا دیتے تھے ان کی باقیات اب عوام کو اربوں کی روٹیاں جمع کر کے، کھربوں کے محلات بنا کے اور کروڑوں کے سُوٹ، ٹائیاں اور لہنگے پہن کے دکھانے کو کافی سمجھنے لگے ہیں۔ ہوتے ہوتے اب تو یہ صورت ہو چکی ہے کہ یہاں کھانے، چھپانے، باہر لے جانے والے کو شریف اور نہ کھانے اور نہ کھانے دینے والے کو بدمعاش خیال کیا جانے لگا ہے۔ لالہ بسمل، جو اَب تک کسی خوش فہمی میں مبتلا ہے، کہتا ہے اب تو یہاں کے حکمرانوں کی غریب پروری کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ ان کے معمولی معمولی ملازموں کے کھاتوں میں بھی اربوں، کھربوں کی ڈھیریاں عام پڑی رہتی ہیں۔ اس کے خیال میں ان معمولی لوگوں کو کھاتے پیتے نہ دیکھ سکنے والے بعض جلد باز اس کے لیے بھی ثبوتوں اور رسیدوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور بعض حاسد خواہ مخواہ امیر خسرو کے اس شعر کو ہمارے قومی و سیاسی حالات پہ منطبق کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں کہ: کھیر پکائی جتن سے ، چرخہ دیا جلا آیا کتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا دنیا بھر میں ملکی برتری کے ثبوت کے طور پر لالہ کا بیان ہے کہ اب تو ہماری خوشحالی و فارغ البالی کا یہ عالم ہے کہ جہاں بھارت جیسے کنگلے ملک سمیت پوری دنیا میں اعلیٰ ترین افسر کے اختیارات اور چھڑی محض چائے کے ایک کپ پہ تبدیل ہو جاتے ہیں، ہم ا س اہم ترین وقوعے کے لیے ’شایان شان‘ تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم حکیم جی جیسے مایوسی پھیلانے والے کرداروں کی بابت کیا کہیں؟ جن کے بقول یہاں ایمان دار افسر سسک سسک کے مرتا ہے اور بد کردار ملازم کے اللے تللے ہی ختم نہیں ہوتے… ان کے خیال میں یہاں چور اُچکے چودھری اور غُنڈی رَن پردھان والا دستور ، نہ صرف رائج بلکہ بہت مقبول بھی ہے… ان کے فرمان کے مطابق یہاں سرکاری ملازم کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی ’مٹھائی‘ لیتے ہیں… ساری عمر سوچ کی دہلیز پہ قدم نہ رکھنے والے عامی اور بڑی بڑی ڈگریوں سے لیس لوگوں کو ایک ہی ترازو میں تولا جاتا ہے… یہاں سیاسی پارٹیوں کو قانون کا آم پولا کر کے دینے والوں کیلئے کسانوں والا فارمولہ ’دَب کے واہ، تے رَج کے کھا‘ استعمال ہوتا ہے… یہاں علم و ادب جیسے لطیف اور خالص اعزاز بھی بُوتھی پہ سیاسی پارٹی کا نشان دیکھ عطا کیے جاتے ہیں… یہاں عمروں کے گناہ ’عمروں‘ کے ذریعے بخشوانے کا رواج عام ہے۔ رمضان جیسے متبرک مہینے میں سارا سارا دن مہنگی چیزیں بیچ کے رات کو مسجد میں بیس بیس تراویح کا ثوابِ دارین حاصل کیا جاتا ہے… یہاں دودھ اور شہد کے فوائد قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں لیکن پورے ملک سے دونوں اشیا کا خالص صورت میں ملنا محال ہے… یہاں استاد جیسے مقدس پیشے سے وابستہ لوگ تدریس کیلئے کلاس میں جانے کو توہین اور احتجاج کے لیے چوکوں، چوراہوں میں ہفتوں، مہینوں بیٹھنے کو اعزاز سمجھتے ہیں… یہاں تو مسیحا جعلی ادویات لکھنے کیلئے قلم اور پیڈ بھی دلال کمپنیوں کے ایجنٹوں سے منگواتا ہے یہاں غیرت صرف بیٹی کے جائیداد میں اپنا حصہ مانگنے اور مرضی کی شادی کا اظہار کرنے پر جاگتی ہے، منھ مانگے جہیز، سیکڑوں بھوکے براتیوں کے لاؤ لشکر، بے مقصد قوالی نائٹوں پہ آرام سے لمبی تان کے سوئی رہتی ہے… انکے بقول اہلِ ایمان تو شاہین عباس کے اس شعر کی صورت سراپا سوال ہیں: کوئی بتائے کہ یہ نیرنگیِ نمو کیا ہے؟ چبھے جو پاؤں میں کانٹے سروں سے نکلے ہیں