مریم نواز شریف کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی کی چیخ و پکار فطری ہے‘ بلاول بھٹو سب سے زیادہ پریشان ہیں‘ اپنے والد آصف علی زرداری اور پھوپھی فریال تالپور سے زیادہ‘ بلکہ کہیں زیادہ غصہ انہیں مریم نواز کی گرفتاری پر آیا ہوش اڑا دینے والا غصہ‘ یار لوگ اس کی توجیح اپنے اپنے انداز میں کر رہے ہیں‘ کسی کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد کو اپنی گرفتاری کا دھڑکا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک پیپلز پارٹی کی قیادت مریم نواز کی باغیانہ تقریروں کو غنیمت سمجھ رہی تھی کہ حکومت اور فوج کے خلاف محترمہ عوام کو اکساتی اور اپنے حلیفوں کی سودے بازی پوزیشن بہتربناتی رہیں‘ افتاد پڑے تو مسلم لیگ اور شریف خاندان بھگتے‘ حکمران اور ان کے سرپرست دبائو میں آئیں تو ساری اپوزیشن کا فائدہ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کو یہ چکمہ بھی دے سکتی ہے کہ دیکھیں ہماری قیادت مریم نواز شریف کی طرح حدود سے تجاوز نہیں کر رہی پھر بھی زیر عتاب ہے۔ اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔ مریم نواز کی گرفتاری نے یہ تاثر مگر دور کر دیا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات خراب اور بھارتی جارحانہ عزائم آشکار ہونے کے بعد قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے احتساب کا عمل سست روی کا شکار ہو گااور نیب کو مطلوب اپوزیشن رہنما وسیع تر قومی مفاد میں گرفتاریوں سے بچ جائیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب سرونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ جرمنی کی یورش بڑھتی جا رہی ہے‘ برطانیہ کا کیا بنے گا ؟تو برطانوی لیڈر نے جواباً سوال کیا تھا کہ آیا برطانوی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں ؟ اثبات میں جواب ملنے پر چرچل نے کہا پھر ہماری آزادی اور خود مختاری کو کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان میں غیر معمولی حالات پیدا ہوں تو سب سے پہلے اور زیادہ تر جرائم پیشہ عناصر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوز‘ ناجائز منافع خور‘ قبضہ گروپ‘ سمگلر‘ قرض خور‘ ٹیکس چور وغیرہ وغیرہ۔ جرم اور سیاست میں ملاپ بڑھا تو کسی کو احساس نہ ہوا کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔ قوم کے اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک منتقل ہوتے اور غیر قانونی طریقے سے واپس آتے رہے‘ کسی کے کان پر پر جوں نہ رینگی‘ کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی‘ کنگال ملک پر اگر خدانخواستہ برا وقت آیا‘ ازلی دشمن بھارت نے حملہ کر دیا تو معاشی طور پر دیوالیہ ریاست اپنا دفاع کیسے کر پائے گی؟۔ سونیا گاندھی نے پاکستان پر ثقافتی یلغار کا بھاشن دیا تو سب شانت رہے اور نریندر مودی نے سجن جندال کے ذریعے پاکستان پر شب خون مارا تو کسی کو ہوش نہ آئی ۔جاتی امرا سے واپسی پر نریندر مودی نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ بہترین سفارت کاری کے ذریعے اس نے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا توازن خراب کر دیا؟ مجال ہے کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا کی ہو‘ یہ بیان شیر مادر کی طرح ہضم ہو گیا ‘اب مگر مریم نواز‘ بلاول بھٹو اور ان کے ہمنوا مودی کے اقدامات کو عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ امریکہ سے جوڑ کر کشمیریوں سے بے وفائی قرار دے رہے ہیں۔ حد ہے ڈھٹائی اور سینہ زوری کی۔ یہ منطق اگر تسلیم کر لی جائے کہ مریم نواز اور نیب و ایف آئی اے کو مطلوب دیگر لیڈروں کی گرفتاری سے مسئلہ کشمیر اور قومی اتحاد و یکجہتی کو زک پہنچی تو پاکستان کی جیلوں میں مقید دیگر پاکستانیوں کا قصور کیا ہے کہ انہیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کا موقع نہ ملے۔انہیں فی الفور رہا کر کے 14اگست کی ریلیوںمیں شرکت کا موقع کیوں نہ دیا جائے جہاں وہ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کا نعرہ لگائیں اور مودی سرکار کو پیغام دیں کہ پاکستان کے سیاستدان متحد ہوں نہ ہوں ‘ملک کے عوام ‘شریف اور بدمعاش‘ قانون پسند اور قانون شکن‘ معصوم اور جرائم پیشہ سب متحد ہیں ‘ یک جان دوقالب ‘اس پرچم کے سائے تلے سب ایک ہیں۔ خطرات موجود ہیں اور پاکستانی قوم کا متحد ہونا تاریخی ضرورت مگر دنیا کے کسی ملک میں دوران جنگ قانون کو مطلوب افراد کی گرفتاریاں رکی ہیں نہ تھانے کچہری اور عدالتوں پر تالے لگے اور نہ احتساب کا پہیہ سست ہوا ۔ بلاول بھٹو نے تو اس بات پر بھی حکومت اورعمران کو برا بھلا کہا کہ اس نے ایک خاتون کو گرفتار کیا۔ پیپلز پارٹی کے نوعمر قائد نے عمران خان کو فوجی آمر ضیاء الحق سے ملایا جس کے دور میں خواتین کو نہ بخشا گیا‘ اول تو قانون میں کوئی تخصیص نہیں ‘ اگر عورت جرم کرے تو وہ مردوں کی طرح قابل دست اندازی پولیس ہے۔ لیکن یہ استدلال اگر تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں خواتین کی بے حرمتی اور گرفتاریوں کا ریکارڈ بلاول بھٹو کے نانا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے توڑا۔ ضیاء الحق اور عمران خان کے دور میں سیاسی اختلاف کے باعث کسی گھریلو خاتون کی گرفتاری عمل میں آئی نہ پولیس یا کسی دوسرے ادارے کے اہلکاروں نے لوگوں کے گھروںمیں گھس کر کسی کی ماں بہن ‘ بہو بیٹی کو بے توقیر کیا۔ اپنے ہی ایم این اے نارووال کے ملک سلیمان کی اہلیہ اور کم سن بیٹیوں کو تھانے میں بند کرانے‘ بیگم نسیم ولی خان ‘ چودھری ظہور الٰہی کی صاحبزادیوں ‘ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی اہلیہ‘ بیگم مہناز رفیع‘ عاصمہ جہانگیر اور دیگر درجنوں خواتین کو بھٹو کے عہد ستم میں جیل کی ہوا کھانا پڑی‘ ان میں سے کسی پر دستاویزات میں جعلسازی کا الزام تھا نہ جعلی اکائونٹس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن اور نہ عرب شہریوں کے نام پر کروڑوں ڈالر کی ٹی ٹی وغیرہ۔ بھٹو دور میں گرفتار ہونے والی تمام خواتین سیاسی کارکن تھیں یا سیاستدانوں کی رشتہ دار گھریلو عورتیں۔ گزشتہ روز سابق گورنر سندھ محمد زبیر ایک چینل پر ٹی ٹی کے ذریعے کروڑوں ڈالر منتقلی کا دفاع کر رہے تھے‘ کہنا ان کا یہ تھا کہ ہر تاجر اور کاروباری یہ کام کرتا ہے اور کوئی اس سے پوچھتا نہیں‘ اینکر نے ازرہ مروت مگر موصوف سے یہ نہ پوچھا کہ ان میں سے کس کا باپ یا چچا‘ تایا وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اس کو ٹی ٹی کے ذریعے رقوم صرف اس وقت کیوں آتی ہیں‘ اثاثوں میں ہوشربا اضافہ تب کیسے ہوتا ہے‘ جب خاندان اقتدار میں ہو۔ عام دنوںمیں مندا ہی مندا۔ پاکستان میں کاروبار اور سیاست کے علاوہ جرم اور سیاست کے ملاپ نے ستم ڈھایا‘ اہل اقتدار نے قومی وسائل‘ عوام کے خون پسینے کی کمائی کو بھی حلوائی کی دکان سمجھا جس پر فاتحہ خوانی ان کا پیدائشی حق ہے‘ کبھی نہ سوچا کہ ایک نہ ایک دن یہاں نہیں تو وہاں اس کا حساب دینا پڑیگا۔ یہ تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ کبھی راج سنگھاسن ڈولے گا اور اسی دنیا میں یوم حساب ہو گا ۔ہمارے حکمران اورسیاستدان تقریر نویسوں کا آموختہ دہراتے رہے۔ حبیب جالب اور شعیب بن عزیز کے من پسند اشعار گنگناتے رہے مگر فیض احمد فیض کو کسی نے پڑھا نہ تقریر نویسوں نے بتانے کی زحمت کی جو برسوں قبل کہہ گئے تھے ؎ ہر اک اولی الامرکو صدا دو کہ اپنی فرد عمل سنبھالے اٹھے گا جب ‘جم سرفروشاں پڑیں گے دارورسن کے لالے کوئی نہ ہو گا کہ جو بچا لے جزا ‘ سزا سب یہیں پہ ہو گی یہیں عذاب و ثواب ہو گا یہیں سے اٹھے گا شور محشر یہیں پہ روز حساب ہو گا نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں قیامت صغریٰ بپا کی ‘ نسل پرستی کو ہوا دی اور سرحدوں پر حالات خراب کئے تو اپوزیشن یہ امید لگا بیٹھی کہ مودی کے ان اقدامات کا بھارت کو فائدہ پہنچے نہ پہنچے ‘شریف خاندان اور زرداری خاندان کو چھوٹ ضرور ملے گی۔ نیب اور دیگر ریاستی ادارے قومی اتحاد و یکجہتی کے نعروں سے مرعوب ہو کر انہیں رعائت دیں گے اورمریم نواز وبلاول مودی کے اقدامات کا ملبہ ڈال کر حکومت‘ فوج ‘آئی ایس آئی ‘ نیب اور ایف آئی اے کو بیک فٹ پر لے آئیں گے‘ یوں سودے بازی آسان ہو گی۔ ریاستی اداروں کا پرنالہ مگروہیں کا وہیں ہے ‘ کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی‘ قومی اتحادو دفاع اور احتساب کا عمل شانہ بشانہ چل رہا ہے‘ سبک‘ رواں اور ہموار۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ یہیں پہ روز حساب ہو گا