میں اپنے گزشتہ کئی کالمز میں اس بات کا تذکرہ کرتا رہتا ہوں کہ سڑکیں، اس کا نظام اور اس سے منسلک نظم و ضبط کسی بھی ملک کا آئینہ دار ہوتے ہیں لہذا ان کا منظم ہونا انتہائی اہم ہے، اسلام آباد ملک کا دارلحکومت ہونے کی وجہ سے پورے ملک کا عکس اور ایک نمائندے کی حیثیت رکھتاہے، اسلام آباد میں آئے روز ہونے والے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، لانگ مارچ اور دھرنوں سے ملکی معیشیت کو جہاں بے تحاشا نقصان پہنچا ہے وہیں پرعالمی سطح پر ملکی ساکھ بھی خطرے میں ہے، اس کی اہم وجہ آمدورفت کا پہیہ جام ہونا، اندرون اور بیرون شہر میں سامان کی ترسیل، اشیا خوردنوش کی فراہمی میں کمی، مال برداری اورعوام کا آنا اور جانا بے حد مشکل ہوجاتاہے، اس کے علاوہ تعلیمی نظام بھی کافی حد تک متاثر ہوتا ہے کیونکہ گاڑیاں بند ہونے کی وجہ سے سفر کر نا تقریبا ناممکن ہوتا جاتا ہے، جسکی وجہ سے حکومت تعلیمی ادارے اور معمول کی سرگرمیاں بند کرنے پر مجبور ہے،اور نہ صرف یہ بلکہ ان لانگ مارچ وغیرہ کی وجہ سے چند انتشار پسند عناصر ملک کے امن و امان کے کے لیے ایک خطرہ بن جاتے ہیں جیسے کہ ٹائر جلانا، لوٹ مار کرنا، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور ملکی املاک کو نقصان پہنچانا عام ہو جاتا ہے، یہ بات تو واضح ہے کہ با شعور اور ملک کی بقا اور خوشحالی کے لیے سوچنے والے لوگ تو ایسا ہر گز نہیں چاہیں گے تاہم ایسا چاہنے والوں کو مواقع یہی باشعور لوگ ہی فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو بحیثیت قوم اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہو گا۔ احتجاج کو آئینی حق حاصل ہے لیکن پورے ملک کا پہیہ جام کرنا، تمام معمولاتی سرگرمیوں پر قفل لگانا کسی طور بھی آئینی نہیں ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے مقا صد کے حصول کے لیے اپنے جیالوں کو سڑکوں پر لانے کے لیے اکساتے ہیں، جس کی وجہ سے سڑکوں پر حادثات کی شرح میں اضافے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، روڈ سیفٹی کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جیالے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر گروہ در گروہ سڑکوں پر نکل آتے ہیں جس سے معمول کی ٹرانسپورٹ متاثر ہوتی ہے، اور اس بات کا عملی جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگانا مشکل ہوگا کہ ملک کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں ہے جس میں ٹرانسپورٹ کا عمل دخل نہ ہو یا روڈ کے نظام کی ضرورت محسوس نہ ہو،میرا نقطہ نظرنہ صرف عوامی مشکلات کی طرف ہے بلکہ روڈ سیفٹی کو بطور سنگین معاملہ موضوع گفتگو لانا بھی ہے، عوامی مشکلات کا بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق سڑکوں کے نظام سے ہی ہے، دیہاڑی دار مزدورہو، یا نوکری پیشہ افراد، کاروباری معاملات ہوں یا تعلیمی سرگرمیاں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا قانونی بالادست،سب ہی سڑکوں کے نظام پر منحصر ہیں، اور ملک کی سنگین صورتحال کی وجہ سے سب کے سب ہی متاثرین میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے کوئی بھی لائحہ عمل بنانے سے قاصر ہے جس کی اہم وجہ بد انتظامی اور مس مینجمینٹ ہے،سڑکوں پر ہونے والے حادثات ہماری بد انتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، غلط پارکنگ، سڑک کنارے ٹھیلوں سے سڑکیں تنگ ہو جاتی ہیں اور انتظامیہ کا عدم موجودگی سے سڑکیں ٹریفک کے لیے گھنٹوں بند رہتی ہیں، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں سڑکوں کے نظام متاثر ہونے کی ایک اہم وجہ پروٹوکول کا نظام ہے، میں چند مہینے پہلے اپنے ایک کالم وی آئی پی نظام پر لکھا تھا، اسلام آباد کے شہری اس نظام سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر وفد اسلام آباد میں ہی آتے ہیں اور یہاں کے فائیو سٹار ہوٹلز میں ان کے قیام کی وجہ سے ارد گرد کی سڑکیں ٹریفک کے لیے اکثر و پیشتر بند کر دی جاتی ہیں جس سے عام عوام بہت متاثر ہوتی ہے، جیسے آج کل انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان اور ان کی اسلام آباد سے پنڈی آمدورفت کی وجہ سے سکول، کالج، یونیورسٹیز، دفاتر اور روزمرہ کے کاموں کے لیے نکلنے والے افراد پورا پورا دن روٹ کے نام پر ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں، وطن عزیز میں باہر سے آنے والے ہر شخص کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب اپنے ہی ملک کے لوگوں کے معمولات کو تو متاثر کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے، اس کے لیے بھی پلاننگ کی ضرورت ہے جو کہ ناپید ہے، وی آئی پی موومنٹ ہو یاسیاسی معاملات، دھرنے ہوں یا لانگ مارچ، ان سب کی قیمت عام عوام کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے،اس طرح کی تمام تر صورتحال کی ذمہ داری ہم حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ نہیں ہو سکتے، ان تمام معاملات کی درستی کے لیے ہر شخص کو اپنا کردار انفرادی طور پر ادا کرنا ہوگا، تب ہی ملک میں امن کی فضا قائم ہو سکے گی، اس سلسلے میں اگر انفرادی سطح پر سوچا جائے توہم سب ہی آپس میں ایک دوسرے کے لیے مسائل میں اضافے کا باعث ہیں، دیکھا جائے تو ان دھرنوں اور ملکی املاک کو نقصان سے عوام کے لیے ہی پریشانی میں اضافے کا موجب ہے جبکہ ان پروٹوکولزاور وی آئی پی موومنٹ سے حکومت عوام کے لیے مشکلات میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے، یعنی کہ ہم خود بھی خود کے لیے مسائل اور حکومت بھی ہمارے لیے ہی مسائل میں اضافے کر رہی ہے، ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک واعظ پلاننگ اور مینجمینٹ کی اشد ضرورت ہے،تب ہی ملک اور اس کے افراد امن اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوں گے۔ مرکزی انتظامیہ کو اسلام آبا د کا امن وامان برقرار رکھنے اور سیاسی معاملات کو معمول کی سر گرمیوں سے دور رکھنے کے لیے ایک تدبیری لائحہ عمل قائم کرنے کی ضرورت ہے، نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے ملک میں ایک بہتر حکمت عملی کے تحت قانون کے نفاذ کے لیے سختی سے کام لینا ہوگا، غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کو بند کرنا، بے نام اور بغیر شناخت کے اسلام آباد کے اندر گاڑیوں کے داخلے پر مکمل پابندی اور اس سے منسلک یا جدید طریقوں کو بروئے کار لا کر ایک بہتر حکمت عملی تجویز کی جائے تاکہ ملک کو پیچیدہ اور ناگہانی حادثات سے محفوظ رکھا جا سکے۔