آج یوم کشمیر ہے جس کو پاکستان اور کشمیر کے عوام یکساں جوش اور جذبے کے ساتھ منارہے ہیں۔اس دن کی ایک نمایاں اور تاریخی حیثیت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے اور ان کو اس بات کا یقین دلایا جائے کہ حالات خواہ کیسے ہی سنگین اور پر آزمائش ہی کیوں نہ ہوں‘ ساری مہذب دنیا اور پاکستان کے عوام اپنے کشمیری بھائی اور بہنوں کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ یوں تو بھارت کی ہر حکومت نے ہی مقبوضہ ریاست جموں وکشمیرکے عوام کے حقوق کو غصب کیا اور اپنے ان وعدوں سے روگردانی کی جو 40ء کے عشرے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے توسط سے کئے گئے تھے لیکن موجودہ بھارتی قیادت یعنی مودی سرکارنے تو اس سلسلے کو شرمناک حد تک اپنے لئے باعث رسوائی بنارکھا ہے ۔ اس کا اندازہ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے بھی اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے اور ان کو یہ آزادی حق خود ارادیت کی صورت میں دی جائے گی۔ اب اس فیصلے کو گزرے تقریباً سات عشرے گزر گئے لیکن مجبور اور مظلوم کشمیریوں کو ان کا مذکورہ حق نہیں ملا۔ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ایک نہایت نمایاں حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں قیام امن کے مقصدکی خاطر بلاشبہ گرانقدر خدمات انجام دی ہیں لیکن جب معاملہ جموں وکشمیر اور فلسطین کے عوام کی آزادی اور حقوق کا آتا ہے تو یہ ادارہ ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے جس کو سوائے غفلت اور کوتاہی کے کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اس وقت مقبوضہ وادی میں ہر طرح کی پابندیوں کے شکار کشمیری عوام عملی طور پر ایک جیل میں اپنے جمہوری حقوق کیلئے پرامن سیاسی جدوجہد میں مصروف ہیں۔مودی سرکار نے ان مجبوراور بے اس کشمیریوں کے مستقبل کو خطرات سے دوچارکرنے کیلئے سب سے پہلے تو 5اگست 2019ء کو ایک پارلیمانی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 35-A اور 370 کو منظورکیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی اور آئینی حیثیت تبدیل ہوگئی۔ اسی طرح مودی سرکارنے گذشتہ 18ماہ سے وادی کا گویا محاصرہ کررکھا ہے ۔ اس ضمن میں بنیادی بات یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں بین الاقوامی میڈیا‘ سیاح‘ غیرسرکاری تنظیموں اور سیاسی وسماجی کارکنوں کے داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے اس پر مستزاد یہ کہ اقوام متحدہ کے مبصرین کو بھی مقبوضہ وادی میں داخلے سے باز رکھا ہوا ہے ۔اس کے مقابلے میں پاکستان نے اپنے آزادکشمیر کے علاقے میں لائن آف کنٹرول پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے ۔مودی سرکار ایک انتہائی سوچے سمجھے منصوبے (بلکہ سازش)کے تحت مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے مسلسل سرگرم ہے ۔ایک طرف تو 1947ء میں وادی سے نقل مکانی کرکے چلے جانے والے کشمیری باشندوں کو نہایت پرکشش مالی اور سماجی ترغیبات دے کر واپس آکر آباد ہونے کی دعوت دی جارہی ہے اور ان کی آبادیوں کو’’پنڈت بستیاں‘‘ کا نام دے رکھا ہے ۔ اسی طرح غیر کشمیری افراد کو وادی کے رہائشی ظاہر کرنے کیلئے ان کو رہائشی سرٹیفکیٹ(یعنی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ) بھی فراخدلی کے ساتھ جاری کئے جارہے ہیں۔ مصدقہ اطلاعات اور ریکارڈ کے مطابق اب تک پانچ لاکھ سے زائد مذکورہ سرٹیفکیٹ جاری کئے جاچکے ہیں۔یہ صورتحال اس حوالے سے بھی نہایت فکر انگیز اور تشویشناک ہے کہ بھارت نے اپنی باقاعدہ فوج کے 9لاکھ سے زائد افسر اور جوان وادی میں تعینات کررکھے ہیں جن کو مقامی مسلمان آبادی پر حسب منشاء تشدد اور جبرکا نشانہ بنانے کی کھلی آزادی ہے ۔مذکورہ اطلاعات کے گذشتہ 30برس کے دوران بھارتی فوجی درندوں نے ایک لاکھ سے زائدافراد کو شہید کیا ہے ۔یہ تعداد اس حوالے سے بھی نہایت تشویشناک ہے کہ خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی ‘بزرگوں اور بچوں پر تشدد اور مسلمان افراد کی جائیداد اور تعمیری اثاثوں کو تباہ کرنے کے واقعات نہایت قابل مذمت ہیں۔ پاکستان کی ہر حکومت نے اپنے کشمیری بہنوں اوربھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے ۔ آزادکشمیر کی حکومت اور وہاں کی آبادی کا معیار زندگی ہی نہیں بلکہ وہاں پر مشاہدہ کیا گیا جمہوری ماحول بھی ساری دنیا کے سامنے موجود ہے ۔ پاکستان کے عوام اپنے کشمیری مسلمان بہنوں اوربھائیوں کے ساتھ ان کی ہر خوشی اور دکھ میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی ہر حکومت نے مقبوضہ وادی کے عوام پر زندگی کا قافیہ تنگ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس ضمن میں یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ کرونا کی خطرناک مہم نے بھی مودی سرکارکی غفلت اور ظلم کو کم نہیں کیا۔ مہذب دنیا کیلئے یہ حقائق بلاشبہ چشم کشا ہیں کہ مقبوضہ وادی میں اب تک ایک لاکھ 33ہزار 432 افراد کرونا کا شکار ہوگئے ہیں۔اس وباء سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2ہزار سے زائد ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا کرونا کی وباء پر قابو پانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہی ہے تو ایسے میں بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اس وباء کا ہدف بننے کیلئے بے سروسامان چھوڑ دیا ہے ۔ اس تشویشناک صورتحال میں بہرحال یہ امر واقعہ کسی حد تک حوصلہ افزاء ہے کہ بین القوامی برادری کی جانب سے اقوام متحدہ کے توسط سے مقبوضہ کشمیری عوام کو حوصلہ اور اخلاقی و سیاسی حمایت فراہم کی جاتی ہے ۔ گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گرٹرزنے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں لہٰذا ان کو سنجیدگی کے ساتھ اور اکٹھے ہوکر اپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہئے اور اس سلسلے میں ان کو اقوام متحدہ کا تعاون اور مدد ہمیشہ میسر رہے گی۔انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ابھی تک حل نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری تصادم کی صورت میں ناصرف یہ دونوں ملک بلکہ ساری دنیا متاثر ہوگی۔ سیکرٹری جنرل موصوف کے یہ خیالات اس پس منظر میں بھی نہایت غور طلب ہیں کہ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں کا سلسلہ اب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔دراصل مودی سرکار ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں سے پاکستان کی حکومت اور عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے ۔دریں اثناء مقبوضہ وادی میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے جنرل سیکرٹری مولوی بشیر احمد نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی کے حالات کی طرف فوری توجہ دے جہاں بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے جملہ حقوق کو اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے ۔سوپور کے علاقے میں ایک تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ بھارت کا توسیع پسندانہ اور سامراجی رویہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے ۔ کشمیر کے عوام نے اپنی جان اور مال کی قربانی دے کر اپنی آزادی کی مشعل کو روشن رکھا ہوا ہے ۔ پاکستان کی حکومت کی طرف سے آج یوم کشمیر (5فروری) کے موقع پرکشمیری عوام کو یقین دلایاگیا ہے کہ مودی سرکار اب زیادہ دیر تک ان کو اپنا غلام بناکر نہیں رکھ سکتی۔ اس ضمن میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی‘وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے الگ الگ پیغامات میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیرکے عوام کو ان کا حق خودارادیت دلانے اور اس کے تحت اپنے مستقبل کا خودفیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے کسی سیاسی‘ اخلاقی اور سفارتی حمایت سے گریزنہیں کیا جائے گا۔واضح رہے کہ خود بابائے قوم‘قائداعظم محمدعلی جناح نے قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہی یہ تاریخ سازبیان دیا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ بابائے قوم کے اس ہمہ جہت بیان میں پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا راز بھی مضمر ہے ۔آج یوم کشمیر مناتے ہوئے بابائے قوم کے اس سنہری قول اور رہنما اصول پر عمل پیرا ہونے کا عزم کیا جانا چاہئے ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور کشمیر کی وادی میں آزادی کا سورج بہت جلدطلوع ہوگا۔ فی الجملہ کہاجاسکتا ہے کہ آزادی کشمیریوں کا حق ہے ۔