جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے خوشبوئوں کے ساتھ ساتھ ہمسفر رہے تو پھر زخم زخم ہو گئے ہم گلاب دیکھتے یہ باغ و محراکا امتزاج بھی تو شاعرانہ ہے۔ کہیں زخمی ہاتھ اور کہیں آبلہ پائی، بس زندگی اسی کا نام ہے۔ وہ دور تھا جب ہم نے افق رنگ سنہرے دور میں قدم رکھا تھا، خواب ہماری آنکھوں پر دستک ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آنکھوں کے راستے دل میں اتر آتے تھے۔ پھر وہ خواب سوچ بنے اور سوچ خیال بن کر شعروں میں ڈھلنے لگی۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب اشجار پر ٹہنیوں کی سرسراہٹ، راہ پر قدموں کی آہٹ اور آسماں پر ستاروں کی جگمگاہٹ آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہی عمر ہوتی ہے جب آپ فیض اور منیر نیازی کو اپنی پسند میں پاتے ہیں اور ناصر کاظمی امریکہ سے آئے ہوئے ہیں اور ان کے اعزاز میں چند دوستوں کی نشست رکھی گئی ہے۔ ظاہر یہ ایک خوشگوار بات تھی۔ ناصرکاظمی کے بیٹے سے ہماری دوستی اور ان کا دوسرا بیٹا حسن کاظمی تو اسلامیہ کالج سول لائنز میں میرا کولیگ رہا۔ ہمیں شاعری کا کیسا جنون تھا۔ ناصر کاظمی کی غزلیں ہمیں از بر تھی۔ خاص طور پر چھوٹی بحر کی غزلیں جنت ماہی گیروں کی ٹھنڈی رات جزیروں کی اسی بستی سے آتی ہیں، آوازیں زنجیروں کی مجھ سے باتیں کرتی ہیں خاموشی تصویروں کی ان ویرانوں میں ناصر کان دبی ہے ہیروں کی‘‘ ان کی ’’پہلی بارش‘‘ بھی کیا غضب کی طویل غزل تھی۔ ’’میں نے جب لکھنا سیکھا تھا، پہلے تیرا نام لکھا تھا‘‘۔ پھر مجھے حسن نے ان کی ڈائری دی ان کے شب و روز کا پتہ چلا۔ اب باصر سلطان کاظمی ان کی نشانی ہے اور ان کی خوشبو کا وارث بھی۔ آفیسرز کلب پہنچے تو وہاں شعیب بن عزیز، خالد شریف، حسین مجروح،ڈاکٹر صغریٰ صدف اور بینا گوندی موجود تھے۔ کچھ دوسرے دوست بھی۔ کچھ باتیں ہونے لگیں تو مجھے بھی کہا گیا کہ باصر کی شاعری پر روشنی ڈالوں۔ میں نے کیا کہنا تھا، میری بات ہی سب کی بات تھی کہ ناصر کاظمی جیسے برگدکے نیچے کسی پودے کا سر نکالنا آسان نہ تھا مگر باصر سلطان کاظمی نے اسے ممکن بنایا۔ دیار غیر میں رہتے ہوئے، صبح و مسا کی محنت سے اس نے اپنا مقام بنایا۔ وہ خود کہتے ہیں: ؎ دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل وطن کوئی بھی ہو پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو یقینا ان کی پہلی اور آخری پہچان تو شاعری ہی ہے ان کا ڈرامے میں بھی نام ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ ڈرامائی پہلوان کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح نفسیات اور فلسفہ بھی شاعری کو بھرپور بناتا ہے۔ اس محفل کی خوبی یہ تھی کہ اپنائیت بہت تھی۔ اس طرف شعیب بن عزیز نے توجہ دلائی کہ دیکھیے جتنے لوگ بھی باصر سلطان کاظمی کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے بات کر رہے ہیں وہ اس کا اظہار پنجابی میں کر رہے ہیں۔ واقعتاًیہ سب کچھ غیر ارادی تھا۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے ہی اس کی طرح ڈالی اور تو اور خود باصر جو کہ اردو سپیکنگ ہیں پنجابی ہی میں بات کر رہے تھے۔ باصر کی شخصیت پر ان کا اپنا شعربھی مزیدار ہے: ؎ باصر کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اس میں ہیں کچھ خوبیاں خراب، کچھ اچھی خرابیاں درمیان میں باقی احمد پوری،فرحت عباس شاہ اور کچھ اور دوست بھی آ گئے۔ طے تو یہی پایا کہ باصر ہی سے شاعری سنی جائے مگر باصر کی خواہش تھی کہ دوستوں سے ایک ایک غزل ضرور سنی جائے۔ باقی سب نے تو کلام سنایا مگر شعیب بن عزیز نے سنانے سے انکار کر دیا کہ انہیں اجازت نہیں۔ یقینا ان کا کوئی روحانی سلسلہ ہے لیکن کھانے پر دوبارہ جب شعیب بن عزیز نے کہا کہ ’’نہیں بھئی مجھے شعر سنانے کی اجازت نہیں تو حسین مجروح نے کہا ’’باقی حرکتیں جو آپ کرتے ہیں اس کی اجازت ہے؟‘‘ اس پر قہقہے بلند ہوئے کہ ’’شارٹ آف دی ڈے‘‘۔ اصل میں ایسی محافل میں یہی تو مزے کی باتیں ہوتی ہیں اور تو اور جب کھانے پر سلاد رکھا گیا تو سب کہنے لگے کہ پلیٹوں میں ٹماٹر نمایاں ہیں۔ جتنے کھا سکتے ہیں یہیں کھا لیں کہ اس مہنگائی میں پھر میسر آئیں نہ آئیں‘‘ کہیں میں بھول نہ جائوں کہ اہتمام نبیل نجم اور عتیق احمد راجا نے وجدان پلیٹ فارم سے کیا تھا۔ مشاعرہ کے شاعروں کے اشعار لکھنا تو ممکن نہیں تا ہم ڈاکٹر صغریٰ صدف کا ایک خوبصورت شعر ذہن میں رہ گیا: ؎ اگر روکوں تو مت انکار کرنا مجھے آتا نہیں اصرار کرنا چلیے باقی باتیں تو چلتی رہیں گی میں باصر کی ایک منفرد غزل کے چند اشعار آپ کو پڑھانا چاہتا ہوں کہ جس میں اس کی سخن پر دسترس بھی ظاہر ہوتی ہے وہیں نئے اور جدید دور کا ایک منظر نامہ بھی سامنے آتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے مشینی دور میں شاعر کیسے سوچتا ہے یا اس کی سوچ کیسے بدلتی ہے۔ یہ غزل دلچسپی سے خالی نہیں: ؎ کریں دن میں کام آٹھ سے پانچ اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ چاند ہے اور آسمان ہے صاف رہئیے بالائے بام آٹھ سے پانچ اب تو ہم بن گئے ہیں ایک مشین اب ہمارا ہے نام آٹھ سے پانچ وہ ملے ہیں تو یہ بھی پوچھیں گے کچھ ملا کام وام آٹھ سے پانچ شعر کیا شاعری کے بارے میں سوچنا بھی حرام آٹھ سے پانچ اس غزل کا نیا پن ہمیں بھایا۔ مہمانوں میں جاوید اقبال اعوان، ڈاکٹر ساجد علی، وحید رضا بھٹی اور حاجرہ تبسم بطور خاص شریک ہوئیں۔ بعد میں منصور آفاق بھی آیا۔ گپ شپ میں ایک دلچسپ سلسلہ فیض احمد صاحب کا چھڑ گیا کہ ان کے بارے میں میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ فیض صاحب نے قلعہ قادر کی مسجد میں آذان دی تھی اور نماز پڑھائی تھی۔ کچھ لوگوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ حیرت ہوئی کہ وہاں بیٹھے بیورو کریٹ اور دانشور وحید رضا بھٹی صاحب گویا ہوئے کہ وہ میری بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ خود وہاں فیض صاحب کے میزبان تھے۔ شعیب ہاشمی نے انہیں ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ فیض صاحب آ رہے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے فیض صاحب ،الیکس فیض صاحب اور بچوں کو ویلکم کیا۔ فیض صاحب وہاں آئے مسجد صاف کی، آذان دی اور نماز پڑھائی۔ پھر شعیب بن عزیز صاحب نے بھی کہا کہ اصل میں فیض صاحب استحصالی مذہبی لوگوں کے خلاف تھے۔ اب ہم صاحبِ تقریب باصر سلطان کاظمی کے دو تین اشعار کے ساتھ کالم سمیٹتے ہیں: ؎ اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے مجنوں سے کہو کٹ چکی اک عمر جنوں میں باقی کسی معقول طریقے سے گزارے ایک دشمن کی کمی تھی باصر وہ بھی اک دوست نے پوری کر دی