گیلپ سروے میں بتایا گیا ہے کہ 8فیصد پاکستانی کشمیر کو بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ حیرت انگیز۔ پورے آٹھ فیصد؟ ناقابل یقین سی بات لگتی ہے۔ برسرزمین حقائق سے تو لگتا تھا کہ کشمیر مسئلہ ہی نہیں۔ اگرچہ اخبارات میں آتا ہے اور ٹی وی پر چلتا ہے کہ پوری قوم کشمیریوں کے لئے سڑکوں پر نکل آئی لیکن گنتی کی جائے تو سر ہاتھوں میں لینا پڑ جاتا ہے۔ کسی شہر میں سوتوکسی میں پانچ سو اور پھر کسی میں درجن بھر یکجہتی دکھا رہے ہوتے ہیں۔ چند روز پہلے یوم سیاہ پر وزیر اعلیٰ پختونخواہ نے سات رکنی ملین مارچ کی قیادت کی۔ 8فیصد عوام ابھی تک مسئلہ کشمیر کو بڑا سمجھتے ہیں تو مقام حیرت بھی ہے اور مقام مسرت بھی، کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ چاہے آٹھ فیصد ہی سہی۔ ورنہ تو معاملہ یہ ہے کہ یہ حکومت کے نزدیک بھی ایک ٹویٹر ہفتہ واری سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتا یا پھر خاص دن کے موقع پر ایک عدد بیان اور کبھی کبھار ایک خطاب بھی۔ سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیجیے۔ جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی جماعت کشمیر کاز کا پرچم تھامنے کو تیار نہیں۔اکیلی ریلیوں اور مظاہروں میں لگی ہوئی ہے۔ ایک جماعت الدعوۃ ہوا کرتی تھی۔ کالعدم کر دی گئی۔ اس کی مسجدیں اور نمازیوں کی صفیں بھی بحق سرکار ضبط کر لی گئیں۔ کشمیر کو مسئلہ سمجھنے والی یہ جماعت آج کل ریاست کے لئے خود ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس لئے کالعدم تو کر دیا ایف اے ٹی ایف والوں کو کیسے یقین دلائیں۔ ٭٭٭٭٭ مسئلہ کشمیر کو ہم نے اپنے ہاتھوں دریا برد کیا۔ کئی عشرے کی بات ہے‘ مولانا مودودی مرحوم نے حکومت کو انتباہ کیا کہ کشمیر پر غیر سرکاری جہاد جائز نہیں۔ اس سے کشمیر کاز کو بھی نقصان ہو گا۔ حکومت نے مولانا مودودی مرحوم کو غدار اور بھارت کا ایجنٹ قرار دے دیا اور غیر سرکاری جہاد کئی عشرے جاری رہا۔ جو بات مولانا نے ساٹھ سال پہلے سمجھ لی تھی۔ ریاست کی سمجھ میں اب آئی اور تب آئی جب کشمیر کاز ہمارے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اب ریاست رات دن اعلان کرتی ہے‘غیر سرکاری جہاد جائز نہیں؟ جو کنٹرول لائن پر جائے گا وہ ملک دشمن ہو گا۔ جو جہاد کی بات کرے گا وہ بھی ملک دشمن ہو گا۔ اس سمجھداری کو خراج تحسین پیش کیا جائے یا خراج عقیدت ‘ عقل سوچ میں گم ہے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت کی ریلیوں سے یاد آیا‘ چند ماہ پہلے تک کئی تجزیہ نگاروں سے سنا اور ان کا لکھا ہوا پڑھا کہ جماعت اپنی سٹریٹ پاور سے محروم ہو چکی ہے اور ان کی اس بات میں حالات کی گواہی نے بھی وزن ڈالا لیکن کشمیر پر جماعت نے جو ریلیاں کیں۔ وہ ماضی کی جماعت کی بڑی سے بڑی ریلیوں سے بھی بڑی تھیں۔یہاں تک کہ گجرات میں ہونے والی ریلی جو ان ریلیوں میں سب سے چھوٹی تھی‘ پھر بھی اتنی بڑی تھی کہ 2014ء میں عمران خاں کے دھرنے جیسے پانچ سات اجتماع اس میں سما جائیں۔ پتہ نہیں جماعت نے اپنی سٹریٹ پاور بحال کر لی ہے یا عوام کسی اور حساب کتاب میں ان ریلیوں میں آئے جو بھی ہو‘ کھاتے تو زبردستی بھی بند کرائے جاتے ہیں مرد مومن مرد حق کے زمانے میں جماعت اسلامی نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن جیت لئے اور اس کے میئر عبدالستار افغانی نے ترقیاتی کام شروع کرا دیے۔ اس پر مرد مومن کا ماتھا ٹھنکا۔ غوث علی شاہ کے ذریعے بلدیہ ہی تڑوادی اور متحدہ کی سرپرستی میں اتنا آگے چلے گئے کہ جماعت کا عملاً صفایا ہی کر دیا۔ یہی کچھ بلکہ ہو بہو سارا ایکشن ری پلے پرویز مشرف نے کیا۔ جماعت کے میئر نعمت اللہ خاں نے اتنے ترقیاتی کام کرائے کہ مشرف کا ماتھا کئی بار ٹھنکا۔چنانچہ کراچی کو ٹارگٹ کلرز کے غول غیر بیابانی کے سپرد کر دیا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ جے یو آئی کے ایک رہنما مولانا کفایت اللہ کو بلا جواز گرفتار کیا گیا۔ سینیٹر حمداللہ کو پیمرا کے نوٹیفکیشن مبنی بر نادرا اعلامیہ غیر ملکی شہری قرار دیا گیا اور پیمرا کے ذریعے ٹی وی پروگراموں کے بارے میں عجب قسم کے حکم نامے جاری کر دیے گئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ اقدامات کس نے کئے تھے۔ اگر اس خبر کے بجائے وزیر اعظم کوئی بیان جاری کر ڈالتے تو اس کے ساتھ ہونا چاہیے تھا ؟ شاید درج ذیل سطور جیسا: اسلام آباد(وقائع نگار) وزیر اعظم نے سینیٹر حمد اللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کرنے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام غیر دانشمندانہ اور بلا جواز ہے۔ مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کو بھی ناجائز قرار دیا۔ وزیر اعظم نے پیمرا کو انتباہ کیا کہ وہ آئندہ ایسے اقدامات سے باز رہے۔ ٭٭٭٭٭ لیاقت پور میں ریلوے کا ایک اور بدترین حادثہ ہوا۔ ستر سے زیادہ افراد زندہ جل گئے۔ تمام عینی شاہد کہہ رہے ہیں‘ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی یعنی ریلوے کی مجرمانہ نالائقی اس دردناک سانحے کی ذمہ دار ہے۔ وزیر ریلوے کو کشف ہوا ہے کہ حادثہ سلنڈر پھٹنے سے ہوا۔ سلنڈر تو محفوظ حالت میں ملے۔ ریلوے کا محکمہ کچھ زیادہ ہی محفوظ ہاتھوں میں نہیں چلا گیا؟ ٭٭٭٭٭