گزشتہ تیس بتیس برس کے دوران سندھ بالخصوص کراچی میں جو خوفناک فلم چلتی رہی اس کے کسی بھی سین کا تصور رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ آج اگر اس فلم کے کسی ہولناک منظرکو ریوائنڈ کر کے دیکھیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ انسانوں کی بستی میں وہ کچھ ہوتا رہا جو کسی درندوں کی ’’بستی‘‘ میں نہیں ہوتا۔ تبھی تو اس زمانے میں کراچی کے ایک شاعر نے کہا تھا: بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا بھاگ ‘ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا کراچی کی یہ’’ہارر مووی‘‘ کبھی سیاسی مصلحتوں اور کبھی مہربانوں کی شفقتوں سے خوفناک سے خوفناک ترہوتی چلی گئی۔ الطاف حسین کی ملک دشمنی سرگرمیوں میں ایم کیو ایم کی موجودہ کئی نامور شخصیات ملوث تھیں الطاف حسین نے 2005ء میں تو بھارت میں تشکیل پاکستان کے خلاف باغیانہ تقریر کی مگر اس موقع پر ایم کیو ایم کے اندر سے اس کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند ہوئی اور نہ ہی اس وقت ایم کیو ایم کے سرپرست جنرل پرویز مشرف نے اس کا نوٹس لیا۔ جب 22اگست 2016ء کو بانی ایم کیو ایم نے تمام حدود کو پھلاگتے ہوئے عالم مدہوشی میں ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے کا اعلان کر دیا تب مہربانوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے قائد سمیت ایم کیو ایم کی باگیں کھینچنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب کراچی میں کچھ امن ہوا تو قوم نے بھی پرانا حساب کتاب مانگنے کو موخر کر دیا حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ایم کیو ایم کے موجودہ قائدین کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا اور اس وقت تک انہیں کلیئر نہ کیا جاتا جب تک عدالتوں سے ان کی برأت نہ ہو جاتی مگر پھر انصاف پرعنایات اور مصلحتیں غالب آ گئیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایم کیو ایم ۔ پاکستان کے قائدین قوم کی خامشی کو غنیمت سمجھتے اور اپنے دامن پر لگے خون ناحق کے لاتعداد دھبوں کو خدمت عوام کے آب شفاء سے دھونے کا اہتمام کرتے مگر وہ ذرا سنبھلتے ہی پھر آنکھیں دکھانے لگے ہیں اور گزشتہ شب انہوں نے باغ جناح کراچی میں یہ نعرہ لگاکر حد کر دی: سندھ میں ہو گا کیسے گزارہ آدھا تمہارا آدھا ہمارا ایم کیو ایم کی اس جرأت کا سبب وہی سیاسی مصلحت ہے جو جناب وزیر اعظم نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کے لئے اختیار کی ہے۔کبھی جناب عمران خان ایم کیو ایم کو فاشسٹ جماعت کہتے تھے اور آج وہ ایم کیو ایم کے قائدین کو نہایت معقول اورسمجھدار شخصیات قرار دے رہے۔1992ء سے 1997ء کے دوران ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا۔ یہ آپریشن لسانی فسادات کروانے‘ بھتہ خوری‘ ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے قتل و غارت گری جیسے گھنائونے جرائم کے خلاف تھا۔ اس آپریشن کے دوران وہ ہولناک خبریں منظر عام پر آئیں جو ناقابل یقین تھیں۔ 12مئی 2007ء کو معزول چیف جسٹس کراچی کے وکلاء کی دعوت پر وہاں پہنچے تو انہیں کراچی ایئر پورٹ کے جناح ٹرمینل سے باہر نہ آنے دیا گیا اس دوران ایئر پورٹ جانے والے وکلاء مختلف پارٹیوں کے کارکنان اور عام شہریوںکو چڑیوں کی طرح پھڑکایا گیا۔ اس وقت سندھ میں ایم کیو ایم کی حکومت تھی اور وہ سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ آج کے میئر وسیم اختر اس وقت صوبائی ہوم ایڈوائزر تھے۔ قتل و غارت گری کی ساری منصوبہ بندی انہوں نے کی تھی۔ انسداد دہشت گردی کورٹ نے بھی انہیں مورد الزام ٹھہرایا۔ شاید میرے حافظے میں اس سے زیادہ کوئی دل دہلا دینے والا منظر محفوظ نہیں کہ کراچی میں سارا دن ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے خون ناحق سے ہولی کھیلی اور اس 12مئی کی شام کو ’’صدر پاکستان‘‘ جنرل پرویز مشرف فضا میں مکہ لہراتے ہوئے گرجدار آواز میں کہہ رہے تھے کہ جس کی جہاں قوت ہو گی وہ اس کا اظہار تو کرے گا۔ استغفراللہ۔ کیا یوگنڈا اور روانڈا جیسے فری سٹائل افریقی ملکوں میں بھی کسی ملک کے سربراہ سے قتل عام کو یوں کبھی سند فضیلت نہیں بخشی گئی۔ ایم کیو ایم کے قائدین کو ایک اور ناقابل یقین منظر یاد دلا دوں۔2012ء میں ایم کیو ایم کے سکہ بند قائدین رئوف صدیقی‘ الیاس بھولا اورزبیر الیاس وغیرہ نے گارمنٹس کی بلدیہ فیکٹری کے مالکان سے 250ملین روپے کا بھتہ طلب کیا۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ ہماری اتنی حیثیت نہیں ہم سے دس ملین روپے لے لیں۔ اس پر کہا گیا ایک پیسہ کم نہیں لیں گے جب مالکان اتنی بڑی رقم نہ دے سے تو فیکٹری کو آگ لگا دی گئی جس میں 260افراد زندہ جل گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ آج تک اتنے انسانیت سوز سانحے کے مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ سندھ کی تقسیم کے نعرے کا گورننس سے کوئی تعلق نہیں۔ گزشتہ تیس برس کے دوران چند سالوں کو چھوڑ کر ایم کیو ایم سندھ میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص سرکاری و غیر سرکاری سطح پر سیاہ و سفید کی مالک رہی۔ اس دوران مہاجروں‘ سندھیوں اور پٹھانوں کا خون ناحق بہایا تو ایم کیو ایم نے بہایا۔ اس دوران چائنا کٹنگ سے پلاٹوں پر قبضہ کیا تو ایم کیو ایم نے کیا‘ اس دوران پارکوں کو ختم کرکے شادی گھر بنائے تو ایم کیو ایم نے بنائے‘ اس دوران چھوڑے بڑے تاجروں سے اربوں کا بھتہ اکٹھا کر کے لندن اپنے قائد کو بھجوایا تو ایم کیو ایم نے بھجوایا۔ اس لئے کراچی کی محرومیوں کا ذمہ دار ایم کیو ایم ہے۔ کراچی کی تاریخ میں اگر کسی نے عوام کی خدمت کی تو وہ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ ایڈووکیٹ تھے کسی حد تک مصطفی کمال نے بھی کچھ اچھے کام کئے۔ کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کا خوفناک چہرہ پہچان لیا ہے تبھی تو انہوں نے زیادہ سیٹوں پر پی ٹی آئی کو ووٹ دیے۔ بعض دانشور دوستوں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے اپنے اندر جان ہے اور نہ ان کے نعرے میں جان ہے۔ یہ بجا ہے مگر ہماری تاریخ ایسی ہے کہ دودھ کے جلے کو چھاچھ بھی پھونک پھونک کرپینا پڑتی ہے۔ جب آغاز میں شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں چھ نکات کا شوشا چھوڑا تو ایسی ہی بات کہی گئی کہ مجیب کی ایسی حیثیت نہیں کہ لوگ کے اس کے پیچھے چل پڑیں۔ جب ایک سال طویل انتخابی مہم نفرت‘ لسانی تعصب اور صوبائیت کی بنیاد پر چلائی گئی تو اس کے بڑے ہولناک نتائج اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھگتنا پڑے۔ اللہ اللہ کر کے نفرتیں کم ہوئی ہیں۔ اس لئے ایسے کسی خطرناک ناگ کا پھن آغاز میں ہی کچل دینا چاہیے۔کراچی کارپوریشن اور دیگر اداروں کو ان کی خود مختاری اورمالی فنڈز کا ایک ایک پیسہ ملنا چاہیے اور حکومت سندھ ایم کیو ایم‘ جیسی کیسی بھی ہے کے ساتھ بھر پور تعاون کرتے ہوئے کراچی اور دیگر شہروں اور گوٹھوں میں خدمت عوام میں ہرگز کوتاہی نہ کرے۔ جناب عمران خان ایم کیو ایم کے چھ ووٹوں کے لئے مصلحت سے کام نہ لیتے تو ایم کیو ایم کو سندھی مہاجر کا نفرت انگیز نعرہ ایک بار پھر لگانے کی جرأت نہ ہوتی۔ کراچی میں تیس برس سے جاری خون ریزی اور قتل و غارتگری کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔سندھ میں کیسے ہو گا گزارہ؟ سندھ میں گزارہ سندھی مہاجر کے درمیان پھر سے نفرتیں بھڑکانے سے نہیں اور نہ ہی آدھا تمہارا اور آدھا ہمارا سے ہو گا۔ گزارہ ہو گاتو ایک دوسرے کا محبت و بھائی چارے سے ہاتھ تھامنے اور خدمت عوام سے ہو گا۔