اس معاملے میں دو آرانہیں پائی جاتیں کہ امنگوں ترنگوں سے حاصل کیے گئے اس خطۂ پاک میں کسی بھی ادارے یا محکمے سے شاید ہی ’سب اچھا ہے‘ کی صدا آتی ہو ۔ ’سب اچھا‘ تو دور کی بات، اکثر محکمے تو ایسے ہیں کہ جہاں سے ہر گھڑی ’بیڑا ای غرق اے‘کی نحوست زدہ خبریں نہ صرف سنائی دیتی رہتی ہیں بلکہ ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل میں تیر کی طرح ترازو رہتی ہیں۔ کسی بھی سیاسی وفاداری سے بالا ہو کے سوچیں تو اس کی دو ہی وجہیں نظر آتی ہیں: پہلی یہ کہ ہمارے خود غرض، اقربا پرور ، نالائق اور سُرجن تارے حکمرانوں نے آج تک کسی بھی ادارے کو بین الاقوامی یا کم از کم کسی اخلاقی معیار کے مطابق ڈھالنے یا برقرار رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ دوسری اور بڑی وجہ ہر شعبے میں بلا جواز سیاسی مداخلت اور میرٹ کا بے دریغ قتل ہے۔ معروف روایت ہے کہ ابلیس اپنے وفا داروں سے ان کی کار کردگی کی بابت پوچھ رہا تھا۔ان میں سے کسی نے کہا کہ مَیں نے ایک بھائی کو بھائی کے ہاتھوں قتل کروا دیا، کسی نے میاں بیوی کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی بات کی، کوئی لوگوں کے دلوں میں دولت کا لالچ ڈالنے کا کارنامہ بیان کرنے لگا۔ابلیس ان سب کارندوں یا سیاسی ورکروں کی رپورٹوں سے کوئی خاص متاثر ہوتا دکھائی نہ دیا ۔ پھر ایک تیکھا اور ابلیس کا مزاج شناس چیلا سینہ پھُلا کے بولا: مَیں نے آج ایک ایسے شخص کو ایک ادارے کا سربراہ بنوا دیا،جو اس کا اہل ہی نہیں تھا۔ابلیس نے اُٹھ کے اسے گرم جوشی سے گلے لگایا، پیٹھ تھپکی،اس کا سر ماتھا چوما،بلائیں لیں اور باقی سب کو بھی مخاطب کر کے سمجھانے کے انداز میں گویا ہوا: میرے عزیزو، یہ ہوتی ہے بے مثل کارکردگی! اب ہمیں اس شعبے کی فکر کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، باقی کا کام وہ نہلا ہم سے زیادہ بہتر انداز میں کر لے گا۔ ستم یہ ہے کہ ابلیس کا کام جہاں پہ ختم ہوتا ہے، ہمارے سیاستدانوں کا دھندا وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت اغلب صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کسی بھی سرکاری ادارے یا محکمے کا جائزہ لے لیں، وہاں ہنر مند اور محب وطن افسر نہیں کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا جیالا بیٹھا ہے جسے ملکی خزانے سے بھاری اور اپنی اوقات سے زیادہ معاوضے کے عوض اپنی پارٹی کے ناجائز مفادات کے تحفظ کی فکر ہے۔ پی آئی اے کا باوقار محکمہ ضرورت سے زائد ملازمین اور جعلی پائلٹوں کی بھرتیوں سے تباہ ہو گیا۔ اس پہ کتنا شور مچا، کچھ ہوا؟ ریلوے کا کتنے ہزار ٹن لوہا مختلف فونڈریوں میں راتوں رات کیا سے کیا شکل اختیار کر گیا کسی نے پوچھا؟سٹیل مل میں ہزار ہنرمندوں کی ضرورت تھی،دس ہزار جیالے رکھ لیے گئے، وہ بھی کام کرنے کے لیے نہیں، سیاسی جوڑ توڑ میں معاونت کی خاطر۔ اگر ان کو نکالنے کی بات کریں تو سیاست دانوں کی غیرت جاگ جاتی ہے۔ وہی غیرت جو جھوٹ بولنے، لوٹ مار کرنے، رشتے داروں کو نوازنے،ملک کا امیج تباہ کرنے، جمہوریت کے نام پہ خوف ناک قسم کی آمریت برقرار رکھنے پہ آج تک نہیں جاگی۔ آپ کسی بھی شہر کی بلدیہ کا دورہ کر لیں، آدھے سے زیادہ مالی، خاکروب اور دیگر ملازم آپ کو افسروں کی کوٹھیوں میں بیگمات کی ڈانٹ کھاتے ملیں گے۔ سرکاری ہسپتالوں کی یہ حالت ہے کہ ڈاکٹر وہاں محض اپنے خوبصورت کلینک یا مہنگے پرائیویٹ ہسپتال کی تشہیر کرنے جاتے ہیں، جہاں ہر نارمل ڈلیوری کو سیزیرین میں تبدیل کرنے، مختلف میڈیسن کمپنیوں کے چھپوائے شان دار پیڈ پہ جعلی اور بلا وجہ ادویات لکھنے نیز غلط مشینوں پہ سلط قسم کے ٹیسٹوں کی کمشن وصول کرنے کا کام نہایت سلیقے سے انجام پاتا ہے۔ استاد جسے کبھی باپ اور مُرشد سے بھی فزوں درجہ حاصل ہوتا تھا، آج اس کے وہ تعلیمی جوہر جو پچاس ایکڑ پر مشتمل عالی شان عمارت میں نہیں کھلتے کرائے کی عمارت والی محدود سی اکیڈمی میں فر فر رواں ہو جاتے ہیں۔ مدرسوں اور مزاروں کا جو حال ہے، اس پہ بات کریں گے تو بہت سے لوگوں کا اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ عدالتوں کی کیا بات کریں، زبان اور قلم پہ پہرے ہیں جو بذاتِ خود کارکردگی پہ دال ہیں، صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ کروڑوں کے واجبات وصول کرنے والوں کی زیرِ نگرانی لاکھوں مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ سائیکل چور جیل میں ہے اور سسٹم چور ریل پیل میں۔ وکیلوں کی حالت آپ کارڈیالوجی ہسپتال اور اسلام آباد ہائیکورٹ ہی میں نہیں سڑکوں بازاروں میں بھی ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک دو روز قبل ڈاکٹر رحیق عباسی نے کیا عمدہ بات کی تھی کہ نیوزی لینڈ، کینیڈا، امریکا میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہو جائے تو ہم فوری انصاف کی توقع کرتے ہیںلیکن یہاں کتنا بڑا سانحہ بھی ہو جائے آج تک کسی نظام کے کان پہ جوں بھی نہیں رینگی۔ ایک پبلک سروس کمشن کے محکمے کی ساکھ کچھ بحال تھی، گزشتہ دنوں انکشاف ہوا کہ اس میں بھی’پبلک سروس‘ سے زیادہ ’کمیشن‘ کا غلبہ ہے۔ ٹیکس کا نظام اتنا ڈھیلا کہ خدا کی پناہ! ملاوٹ، جعل سازی، دو نمبری، ذخیرہ اندوزی پہ تو اب ہمارے کان بھی کھڑے نہیں ہوتے۔ آپ کبھی غور کر کے دیکھ لیں اس سارے سسٹم کی خرابی کے پیچھے کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی سیاست دان ہی نکلے گا۔ وجہ سیدھی سی ہے کہ جن لوگوں کو ہم میڈیا پہ سیاسی رہنما کہتے نہیں تھکتے، ان میں سے بیشتر اپنے اپنے علاقے کے چھٹے ہوئے بدمعاش ہیں، جو ’رہنمائی‘ جیسے پُروقار لفظ پہ بدنما دھبا ہیں۔ قانون سازی ان کے بس کا روگ ہی نہیں، وہ بس قانون بازی بلکہ قلابازی کے ماہر ہیں۔ ایسے میں اس سارے سسٹم کو ملیا میٹ کر کے نئے سِرے سے ترتیب دینے اور ایسا نظام نافذ کرنے کی ضرورت ہے، جو اسلامی اقدار یا کم از کم کسی سخت قسم کے اخلاقی معیار پر پورا اترتا ہو۔ جب شاعر نے یہ کہا تھا کہ: مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کُجھ ڈھیندا تو اس کا مطلب تخریب کاری نہیں نئی تعمیر داری تھا۔ اب لوگ اس نام نہاد جمہوریت پہ تین حرف بھیجتے ہوئے کسی ایسے نظام کے متلاشی ہیں، جس میں قاتل اور مقتول کا جنازہ ایک ساتھ اٹھے!!