دنیا کے خاتمے سے پہلے ہونے والی بڑی جنگ جسے عیسائی، آرمیگاڈون (Armageddon)، یہودی ہرمیگیڈو (Har Megiddo) ، ہندو کالکی کا کلیوگ اور مسلمان ملحمتہ الکبریٰ کہتے ہیں، اس کے صرف اور صرف دو محاذ ہیں۔ ایک بھارت اور دوسرا اسرائیل۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان دونوں محاذوں پر صرف ایک ہی قوت اور ایک ہی دین کے پیروکار آج بھی لڑرہے ہیں اور آخری بڑی جنگ تک لڑتے رہیں گے، وہ مسلمان ہیں۔ سید الانبیاء ﷺ کی حدیث، ’’الکفرُملت واحدہ (کفر ایک قوم ہے) کے مصداق‘‘ مسلمان گذشتہ پچاس سالوں سے اگر نام نہاد سیکولر عیسائیوں سے لڑے ہوں یا صہیونی غلبے کے علمبردار یہودیوں سے برسرِپیکار رہے ہوں، ہندوؤں کے دل، زبانیں حتیٰ کہ سول اور عسکری قوت بھی مسلمانوں کے مخالفین کا ہی ساتھ دیتی رہی۔ اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں پر مشتمل جدید مغربی تہذیب و طاقت بھی مسلمان اور ہندوؤں کے معرکے میں ہمیشہ ہندوؤں کے ساتھ ہی رہی۔ لگتا ہے یہ دونوں محاذ اپنی آخری بڑی لڑائی کے لئیے گرم ہو چکے ہیں۔ دنیا گذشتہ پانچ ماہ سے کرونا کی لڑائی لڑرہی ہے۔ شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جو اس خوفناک عفریت سے بچا ہوا ہو۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ لوگ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور پچاس لاکھ ان میں سے داعئی اجل کو لبیک کہ چکے۔ ہر طرف ایک پکار ہے کہ کرونا نے پوری دنیا کی معیشت، معاشرت اور انفرادی زندگی کو روند کر رکھ دیا ہے، لیکن ایسی خوفناک صورت حال میں بھی بھارت اور اسرائیل دو ایسے ممالک ہیں جو اپنی جنگی برتری اور توسیع پسندانہ غلبے کے لئیے میدانِ جنگ میں کود چکے ہیں۔ کرونا کی دہشت اور امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ (George Floyd) کی موت کے بعد پھوٹنے والے نسلی فسادات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاھو نے اعلان کیا ہے وہ اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرتے ہوئے 1967ء میں اردن سے چھینے جانے والے مغربی کنارے (West Bank) کے علاقے کو یکم جولائی 2020ء کو قانونی طور پر اسرائیل میں شامل کرلے گا۔ یعنی اس کالم کی تاریخِ اشاعت سے ٹھیک چار دن بعد یہ سانحہ رونما ہونے والا ہے، اور امتِ مسلمہ کے ستاون ممالک میں کسقدر خاموشی اور بے حسی ہے۔ نیتن یاھو ان یہودی رہنماؤں میں سے ایک ہے جو پہلے دن ہی فلسطینی ریاست کے تصور کا مخالف تھے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مغربی کنارے کا تھوڑا سا علاقہ بھی اگر اسرائیل کے کنٹرول میں نہ رہا، تو اسرائیل کی سلامتی اور سیکورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ گذشتہ ستر سال سے امریکہ میں یہی نظریہ مسلسل بیچا جا رہا ہے، جس کی بنیاد پر امریکہ کے عوام کا سرمایہ اسرائیل کی سیکورٹی پر خرچ کیا جا تا رہاہے۔ مغربی کنارہ دراصل وہ علاقہ ہے کہ جب جنگِ عظیم اوّل میں خلافتِ عثمانیہ پر فتح کے بعد فرانس، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان 1920ء میں سان ریمو کانفرنس (San Remo Conference) کے معاہدے کے تحت تقسیم ہوئی تو اس علاقے کو برطانوی عملداری میں دے دیا گیا تاکہ ایک فلسطینی ریاست قائم کی جاسکے۔ انگریزوں نے غداری کے صلے میں شریفِ مکّہ کے بیٹے کو اس علاقے سے متصل علاقہ اردن کی صورت سونپ دیا تھا۔ اس شخص امیر عبداللہ اول بن الحسین نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ بنی ہاشم سے ہے جنہیں عرب کی اصل قیادت کا حق ہے، اس لئے وہ تمام عرب علاقوں کو جمع کرے گا اور اس نے اس علاقے پر اپنا اولین دعویٰ 1920ء میں ہی کر دیا۔ دوسری جانب برطانیہ اس سے چار سال پہلے ہی خفیہ طور پر 1916ء میں بالفور ڈیکلریشن پر دستخط کر چکا تھا، جس کے تحت وہ اسرائیل کے قیام، یہودیوں کو ایک قوم ماننے اور ان کے اپنی ارضِ مقدس میں واپس لوٹنے کا حامی اور مددگار تھا۔ متنازعہ ترین شہر یروشلم اسی علاقے میں واقعہ ہے۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ قائم ہوئی تو علاقوں اور ملکوں کی ازسرنو حد بندی ہوئی تو 1947ء میں مغربی کنارے سے ملحقہ علاقوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، (۱) عرب ریاست، (۲) یہودی ریاست اور( ۳) عالمی انتظام کے تحت آزاد شہر ’’یروشلم‘‘۔ جیسے ہی اسرائیل کا قیام 1948ء عمل میں آیا تو عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔ اس جنگ کے دوران یہ علاقہ نہ تو اسرائیل کے نقشے میں شامل تھا اور نہ ہی اردن کے نقشے میں موجود تھا، اسے مجوزہ فلسطینی ریاست کے لئیے برطانیہ نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا۔ جنگ کے دوران اردن نے اقوام متحدہ کے تقسیم کے پلان کے مطابق اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور 1950ء میں اسے اردن کا قانونی حصہ قرار دے دیا۔ اپنے قیام کے انیس سال بعد، جون 1967ء میں اسرائیل اپنی پوری جنگی تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا اور ساتھ ہی مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا، مغربی یروشلم پر وہ 1948ء کی جنگ میں پہلے ہی قبضہ کر چکا تھا۔ اب یروشلم کا مقدس شہر مکمل طور پر اس کے قبضے میں آگیا۔ یروشلم کی مشرقی حصے کی ہی اصل اہمیت ہے، کیونکہ اس میں یہودی کا سب سے مقدس مقام ’’دیوار گریہ‘‘، مسلمانوں کی ’’مسجدِ اقصیٰ‘‘، عیسائیوںاور مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ ’’قبتہ الضحریٰ‘‘ اور ’’کنسیہ القیامہ‘‘ یعنی وہ مقام جہاں عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کو صلیب سے اتار کر دفن کیا گیا تھا پھر وہ وہیں سے دوبارہ زندہ ہو کر آسمانوں کی سمت چلے گئے تھے۔ یہ مقبرہ آج بھی ایک خالی قبر کی صورت ہے، جس پر گرجا تعمیر کیا گیا ہے۔ یروشلم کا قدیمی شہر بھی مشرقی یروشلم میں ہی ہے جس کی گلیوں میں سیدنا عیسیٰؑ اور ان سے پہلے آنے والے لاتعداد پیغمبر رہتے رہے۔ اسی شہر سے سید الانبیاء ﷺ معراج پر روانہ ہوئے تھے۔ اس مغربی کنارے میں اس وقت تقریباً بیس لاکھ مسلمان آباد ہیں اور 1967ء سے لے کر اب تک اسرائیل نے دنیا بھر سے چار لاکھ یہودیوں کو یہاں لا کر آباد کیا ہے۔ ان بیس لاکھ مسلمانوں کے علاوہ اصل اسرائیل میں بھی اس وقت 16لاکھ مسلمان آباد ہیں، جبکہ یہودیوں کی تعداد 73لاکھ ہے۔ انگریزوں نے اپنے وفادار قادیانیوں کو بھی1920ء میں یہاں لا کر آباد کیا تھا جن کی تعداد اس وقت پچیس سو ہے، اسی طرح علوی اور دروز بھی ڈیڑھ لاکھ کے قریب وہاں رہتے ہیں۔ ان سب پر یہودی قبضہ اور غلبہ گزشتہ ستر سال سے برقرار ہے۔ آج سے چار دن بعد اسرائیل اس متنازعہ علاقے کو اپنا حصہ بنانا شروع کر دے گا۔ عین ممکن ہے کہ فوراً صرف چند فیصد علاقوں کا اعلان کیا جائے اور دنیا کا ردعمل دیکھ کرپھر کرونا کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ مسلم دنیا پر اس وقت کرونا کی وبا ء تو بہت کم ہے لیکن ان میں مدت سے بے حسی اور مغلوبیت کا وائرس سرایت کر چکا ہے۔ اسرائیل اگر ایک ہی دن میں تمام مغربی کنارے اور یروشلم کو ضم کرنے کا اعلان کرے تو لگتا ہے پھر بھی مسلمانوں کی غیرت نہیں جاگے گی۔ دوسرا محاذِ جنگ یعنی ہندوستان بھی اسی کرونا میں دنیا کی مصروفیت کے عالم میں ہی گرم ہوا ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں ڈیڑھ سو کے قریب کشمیری شہید کئے گئے اور لداخ کے علاقے پر قبضہ جمانے کے لئے چین سے پنگا لیا گیا ہے۔یہی تو وہ دونوں محاذ ہیں جن کی جانب حضرت محمد ؐ نے مسلمانوں کو لڑنے اور جہاد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ وہ لوگ جو آج سے چند برس پہلے سیدالانبیاء ﷺ کی ملحتمہ الکبریٰ اوردورِفتن کی احادیث پر تنقیدی گفتگو کرتے ہوئے اسماء الرجال کی بحث چھیڑتے تھے، آج وہ تمام حدیثیں روزِ روشن کی طرح اپنا وجود ظاہر کر رہی ہیں۔ چار دن بعد کیا ہو گا۔ شاید کوئی ایک مردہ سی آواز بھی امتِ مسلمہ سے برآمد نہ ہو سکے، لیکن یاد رکھیں احادیث کے مطابق اب ایک ایسے وقت شروع ہونے جا رہا ہے، جس کی آتش کی تپش سے شاید کوئی ایک مسلمان گھر بھی ایسا نہ ہو جو بچ پائے ۔ ہر مسلمان کو اس ملحمہ کا ایندھن بننا ہی پڑے گا۔ یہی تقدیرِ الٰہی ہے اور یہی سید الانبیائؐ کی پیش گوئی ہے۔