کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وطنِ عزیز میں اسلامی نظام ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ نہیں ہے اور ایسے بھی ہیں جن کے مطابق ایڈھاک ازم کو فروغ ہے، کبھی ملک اسلامی ہو جاتا ہے، کبھی سیکولر ۔جہاں سے میں دیکھتا ہوں وہاں سے ’’ٹھیکیداری نظام ‘‘ سکہ رائج الوقت نظر آ تا ہے۔ اہلِ دین کئی یونینوں میں بٹے ہیں اور ہر یونین کا دعویٰ ہے کہ دینی و شرعی تعبیرات کی تعمیر کا ٹینڈر انہیں کے نام ہے لہٰذا ان کی یونین کے علاوہ کسی کو اس کام میں ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ جو ہم سوچتے ہیں وہی درست ہے اور جو ہم فرما دیں بس وہی حق ہے۔ یہ صورتحال ان کے لئے تو شاید نفع بخش ہو مگر وہ عوام کیا کریں جنہیں اپنے دینی امور کی تعمیر یا مینٹننس کی ضرورت پیش آتی ہے ؟ مجھے روز ایسے مخلص مگر پریشان حال لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اس کشمکش میں ہوتے ہیں کہ کس کو اپنا کام سپرد کریں ؟ اور کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ اگر سیاستدانوں کو دیکھیں تو وہ بھی اسی ٹھیکیداری نظام کے زیراثر نظر آتے ہیں۔ ہر ایک خود کو ہی جمہوریت کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اور کسی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ زیادہ پرانی بات نہیں نوے کی دہائی کو ہی یاد کر لیجئے۔ چار حکومتیں بر طرف ہوئیں اور ہر برطرفی کے پیچھے جمہوریت کے کسی نہ کسی دعویدار کا بھی ہاتھ ضرور تھا۔ نئے آنے والے دعویدار نے جو کام سب سے زیادہ شوق سے کیا وہ فقط یہ تھا کہ پچھلے کی تعمیرات زمیں بوس کردی جائیں ۔محترمہ فرماتی تھیں، نوے کی دہائی میں دو بار جمہوریت کا قتل ہوا میاں صاحب کا بھی یہی دعویٰ ہوا کرتا تھا۔ رویوں میں تھوڑا بدلاؤ نظر آیا اور پرانی جماعتیں سیاسی بلوغت کا ثبوت دینے پر آمادہ ہوئیں تو ایک نئے دعویدار میدان میں آگئے جن کا دعویٰ ہے کہ اس ملک میں کبھی جمہوریت رہی ہی نہیں۔ جمہوریت کے اصل ٹھیکیدار تو ہم ہیں ۔ بس ذرا کھیل کود میں مصروف تھے سو آنے میں ذرا تاخیر ہوگئی مگر اب آگئے تو سب ٹھیک کردیں گے۔ آپ یہ ٹینڈر ہمارے نام کریں پھر دیکھیں کیسی شاندار جمہوریت تعمیر کر کے دیتے ہیں۔ انکی نظر میں جمہوریت کے تمام دیگر دعویدار فراڈیئے اور چور ہیں، امانت، دیانت اور سیادت کی جملہ خوبیاں من جانب اللہ بس انہیں کو ودیعت ہوئی ہیں۔ آپ طب کے میدان پر ایک نظر ڈالیں تو وہاں بھی یہی صورتحال نظر آئے گی۔ حکیم اور ہومیو ڈاکٹر مل کر ایلو پیتھی پر حملہ آور نظر آئیں گے اور جیسے ہی اس سے فراغ پائیں گے تو آپس میں الجھ پڑیں گے ۔ تینوں میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ طب کا بس وہی ٹھیکیدار ہے باقی دونوں غلط ہیں۔اگر کسی نے اپنی طبی مرمت کروانی ہے تو اسی کا ہی طریقہ مرمت اختیار کرے بلکہ اس کے طریقہ مرمت میں بھی عین مادولت کی ذات کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کیا جائے۔ کوئی کہتا ہے میری ڈگریاں فارن ہیں تو کسی کا دعویٰ ہے کہ ڈگریوں سے کچھ نہیں ہوتا اصل چیز شفاء ہے جو اللہ نے بس اسی کے ہاتھ میں رکھی ہے۔ اور حالت یہ ہے کہ کوئی اوپینڈکس کی جگہ ہرنیا کا اپریشن کر کے ہاتھ دھو رہا ہے تو کوئی تولیہ مریض کے پیٹ میں سی کر دامن سے ہاتھ پونچھ رہا ہے لیکن ہے بس وہی طب کا اصل ٹھیکیدار ۔ اور تو اور ادبیات میں بھی دو فرقے ہیں ۔ مذہبی فرقہ پرست جسم کی جان لیتے ہیں یہ ذوق کے قتل پر آمادہ وتیار، ہر ادبی فرقہ اپنے ادبی ہم مسلکوں کے سوا کسی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ ادبیات کے اصل ٹھیکیدار بس اسی کے گروہ کے لوگ ہیں ۔کسی زمانے میں سیکھنے کی غرض سے ہم بھی ان کے قریب گئے تھے۔ ادب پر گفتگو کی نوبت خال خال ہی آتی سارا وقت مخالف کی کھال اتارنے میں صرف کر دیتے۔ ایک صاحب تو جوش میں آ کر یہاں تک کہہ گئے ’’بد ذوق پیتا ووڈکا ہے اور جسارت ہمارے کام پر نقد کی ؟‘‘ یہ دونوں گروہ اگر کسی بات پر متفق ہیں تو بس یہ کہ مولانا آزاد ادیب نہیں تھے۔ بہت سوچا کہ مولانا سے ایسا کیاگناہ سرزد ہوا جو اس سلوک کے حقدار قرار پائے ؟ دو ہی سمجھ آئے ، ایک یہ کہ مولانا کی سبز چائے کا کپ ان کے جام سے زیادہ نشیلا ہے ، دوسرا یہ کہ چولہے میں جائے وہ ادب جس میں کوئی الہڑ حسینہ دعوتِ شوق دیتی نظر نہ آئے ، اسی ادبی ٹھیکیداری کا نتیجہ ہے کہ 1994ء کے بعد حرام ہے جو کسی پاکستانی ادیب کے قریب پھٹکے۔یہ چند شعبے بطور مثال پیش کئے ہیں ، آپ قومی زندگی کے کسی بھی شعبے کا جائزہ لیجئے ٹھیکیداری نظام سے خالی نظر نہیں آئے گا۔ یہ عدم برداشت کا رویہ ہے جس نے اس ٹھیکیداری نظام کو جنم دیا ہے۔ جب تک یہ رویہ زندہ ہے ٹھیکیداری نظام چلتا رہے گا۔ تعمیری تنقید کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ زندہ معاشروں کی تعمیر و ترقی کی روح ہے، اہلِ علم کو سمجھنا ہوگا کہ متضاد علمی آراء پر باہم سلجھی گفتگو کی گم گشتہ سنت کو زندہ ہوگی تو رحمت اترے گی۔ جو اختلاف رحمت کی جگہ زحمت مہیا کر رہا ہو اسے کیسے جائز یا مناسب اختلاف کہا جا سکتا ہے ؟ سیاستدانوں کو بھی الزامات کی سیاست دفن کرنی ہوگی ۔چوروں کی چوریاں سامنے لانے کی ذمہ داریاں اس کام کے لئے بنائے گئے اداروں اور میڈیا پر چھوڑ دیں اور کون واقعی چور تھا اور کون نہیں یہ کام پراسیکیوشن اور عدلیہ کو کرنے دیں۔ طبیب تینوں قسم کے ہی ٹھیک ہیں ان کی چلتی دوکانیں ان کے درست ہونے کی دلیل ہے۔ برداشت سے نا آشنا ڈگری اور شفاء کسی کام کی نہیں۔ ادیبوں سے دست بستہ درخواست ہے کہ ستر اسّی سال کی عمر ٹانگیں کھینچنے کے لئے موزوں نہیں،اگر گرائیں گے تو کمر میں چوک پڑے گی اور اگر خود گریں گے تو ہڈیاں جڑنے کا نام نہ لیں گی۔ ذرا غور سے دیکھئے، آپ کے ہوتے ذوق چربوں کا ماتم کر رہا ہے، کچھ مثبت اور بڑا لکھئے۔ ہم نے گزرتی ہواؤں سے یہ سرگوشی سنی ہے کہ اگر برداشت کو رواج ہو تو ایک شاندار پاکستان تعمیر ہو سکتا ہے !