کشمیری بچیوں کایہ تعارف نہیں جس کے ذریعہ سری نگرسے تعلق رکھنے والی انیس سالہ اداکارہ زائرہ وسیم نے اپنی شناخت کروائی تھی۔عفت مآب کشمیری بچیوں اورخواتین کشمیر کی داستان عزیمت پرایک پوراباب میری زیرطبع کتاب ’’کشمیرعزیمتوںکی سرزمین‘‘میں پڑھاجاسکتا ہے اور جسے پڑھ کرخواتین کشمیرکااصل تعارف اورانکی اصل شناخت کاپتاچل جاتاہے ۔کشمیر کی مسلمان خواتین روزاول سے اپنے مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر کشمیرپربھارتی جابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کوہمیشہ للکارتی رہیں اوربھارت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہیں۔بھارت کے لئے ان کے قلوب واذہان میں غم وغصہ پایاجارہاہے کیونکہ بھارت نے ان کے شوہروں،انکے بیٹوں اورانکے کڑیل نوجوان بھائیوں کوشہیدکرکے ان کی کوکھ اوران کے گھرا جاڑ دیئے۔یہ تاریخ ہے کہ1947ء سے اب تک مقبوضہ کشمیرسے تعلق رکھنے والی زائرہ وسیم واحد مسلمان لڑکی تھی جودجل وفریب کی شکارہوکرہندوستان کی فلم انڈسٹری میں شامل کرلی گئی یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ بھارت نے کشمیراورکشمیری مسلمانوں پر(CULTURAL AGGRESSION) کرتے ہوئے اپنی فلم انڈسٹری کوہدایات دیں کہ وہ کشمیرکی خوبصورت وادیوں اوریہاں کے کہساروں کے دامن میںفلمیں بنائیں جس کامقصدسوائے اس کے کچھ نہ تھاکہ کشمیری مسلمان لڑکے اورلڑکیوں کواس فیلڈ کی طرف راغب کیاجاسکے اوراس طرح ان کے ذہنوں میں پائے جانے والی آزادی کی سوچ کافورہوجائے گی ۔ لیکن کیامجال گزشتہ 72برسوں میں کسی کشمیری مسلمان لڑکی یالڑکے نے بھارتی فلم انڈسٹری کوتھوکاتک نہیں۔اسکی دووجوہات ہیں اول یہ کہ کشمیری سلیم الفطرت اورراسخ العقیدہ مسلمان ہیںدوئم انکے دلوں نہاں خانوں میں بھارت کے خلاف اس لئے شدیدنفرت ہے کہ ہندو بھارت نے انہیں جبری غلام بنارکھاہے اوران کی آبائی سرزمین جواولیاء کرام کی سرزمین بھی کہلاتی ہے پرناجائزقبضہ اورجارحانہ تسلط کررکھاہے۔یہ اسی سلیم الفطرتی اوربھارت کے تئیں دلوں میں پائی جانے والی شدیدنفرت کی کرشمہ سازی ہے کہ زائرہ وسیم نے یہ کہتے ہوئے کہ اس کادین اورایمان ضائع ہورہاہے جس پروہ پشیمان ہیںپانچ سالہ گناہوں سے سچی توبہ کرلی اورہندوستانی فلم انڈسٹری کلی طورپر چھوڑ دی۔زائرہ وسیم نے اچانک اداکاری چھوڑنے کا اعلان کرکے ممکن ہے سب بھارتیوں کو حیران کردیاہولیکن کشمیری مسلمانوں کونہیں۔کیونکہ جب اس نے بھارت کی فلم انڈسٹری جوائن کی توکشمیری مسلمانوں کااس کے خلاف شدیدردعمل سامنے آیااورکشمیریوں نے زائرہ کی اس حرکت کوکشمیریوں کی شرافت اورانکے شرم وحیاکے علیٰ الرغم قراردیکراسے تباہی کے اس راستے سے واپس لوٹ آنے کوکہا۔ توبہ : یہ عربی زبان کا لفظ ہے ،اس کے حقیقی معنی رجوع کرنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں توبہ سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں جو مذموم اورحرام کام قراددیئے جاچکے ہیںان سے لوٹ کر اللہ اوررسول اللہؐ کے احکامات کی پیروی کرے ۔قرآن اورسنت میںگناہ کے کاموں پرسخت وعیدآئی ہے جبکہ ترک گناہ پرستائش ہے۔ قرآن میں توبہ کا لفظ بار بار آیا ہے اور خدا سے بصدق دل گناہوں کی معافی پر زور دیا گیا ہے۔ گناہ پر نادم ہونے پرخدا توبہ کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے۔ البتہ بوقت سکرات مرگ کی توبہ بے سود ہوتی ہے۔ توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک کہ بندہ سکرات کے عالم میں نہ پہنچ جائے اور جان کنی کے وقت کی گئی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ مسند احمد میں ہے کہ رب تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے، یعنی آخری سانس کے وقت کی گئی توبہ عنداللہ نا مقبول اورنامنظور ہے،اس لئے ہم سب کوتوبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہئے،کیونکہ موت کا پتہ نہیں کہ کب وہ ہمیں آ دبوچ لے گی۔زائرہ وسیم اس حولے سے خوش نصیب ہے کہ اسے اپنی غلطیوں پرندامت ہوئی اوروہ اسلامی تعلیمات کی طرف راجعہ ہوئیں۔ زائرہ کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ میں کام کرنے کی وجہ سے ان کا ایمان خطرے میں پڑرہا ہے۔زائرہ وسیم نے فیس بک پر ایک طویل پوسٹ میں بالی ووڈ سے قطع تعلق کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا 5سال پہلے میں نے بالی ووڈ میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا جس نے میری زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا، مجھے بے تحاشا مقبولیت حاصل ہوئی اور مجھے نوجوانوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا جانے لگا۔ آج جب میں نے بالی ووڈ میں 5سال مکمل کرلیے ہیں تو میں یہ اقرار کرنا چاہتی ہوں کہ میں اپنی اس شناخت سے قطعاََخوش نہیں ہوں۔ جب میں نے چیزوں کو سمجھنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں یہاں فٹ ہوگئی ہوں لیکن میرا تعلق یہاں سے نہیں۔زائرہ وسیم نے کہا کہ اس شعبے نے مجھے بے پناہ پیار دیا، میری حمایت کی اور میری کارکردگی کو سراہا لیکن اس شعبے کے ذریعے میں جہالت کی طرف جارہی تھی اور بہت خاموشی اور بے خبری سے میں اپنے ایمان سے دور ہورہی تھی۔ اس فیلڈ میں کام کرنے کی وجہ سے یہاں کا ماحول مسلسل میرے ایمان میں دخل انداز ہورہا تھا اور میرا میرے مذہب سے تعلق خطرے میں پڑرہا تھا۔ میں نے خود کو یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ میں جو کررہی ہوں ٹھیک ہے اور یہ مجھ پراثر انداز نہیں ہورہا لیکن میں اپنی زندگی سے برکت کھونے لگی تھی۔ لفظ برکت کا مطلب صرف خوشی اور دعا تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مستقل مزاجی اور استحکام بھی ہے جس کے لیے میں نے بڑی جدوجہد کی ہے۔ میں مسلسل اپنی روح سے لڑرہی تھی تاکہ میرے ایمان کی مستحکم تصویر کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنے جذبات اور اپنی سوچ کو سمیٹ سکوں لیکن میں بری طرح ناکام ہوگئی، صرف ایک بار نہیں بلکہ 100 بار۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنے فیصلے کو مضبوط کرنے کے لیے میں نے کتنی کوشش کی ہے۔