نوجوان صرف اپنے والدین کی آنکھوں کے تارے نہیں بلکہ یہ پوری قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں-اس بیدار مغزاور تواناطبقے پراقوام کے روشن مستقبل کادارومدار ہوتاہے ۔لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ ہماری یہ کھیپ بے راہ روی کی ایک خطرناک ڈگرپر چل نکلی ہے ۔نوجوان نسل کو اس وقت منشیات کے ناسور کی ایسی لَت پڑگئی ہے کہ ہر تیسرا اور چوتھانوجوان اس میں مبتلا نظرآتاہے۔بدقسمتی تویہ ہے کہ منشیات کی یہ شرح ان نوجوانوں میں سب سے اوپرہے جوتعلیم یافتہ ہیں اورمہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔منشیات کے ان عادی نوجوانوں میں سترفیصد وہ ہیں جن کی عمریں بیس اور اٹھائیس کے درمیان ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب نوجوان طبقے میںچرس پینے کا رجحان عام تھااور اسے ایک بے ضرر نشہ کے طور پر سمجھا جاتاتھا ۔ حالانکہ تحقیق بتاتی ہے کہ چرس کے استعمال سے انسان کی منطقی سوچ حددرجے متاثر ہوتی ہے اور اس کے استعمال کی وجہ سے انسان سیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔تاہم آج کے ڈیجیٹل دور میں نوجوانوں میں جس نشے کااستعمال ایک معمول بن چکاہے وہ آئس کرسٹل کے نام سے جاناجاتاہے۔میتھ ایم فٹامین Methamphetamine) ) نامی کیمیکل سے تیار ہونے والے اس نشے کو عام طور پر آئس، آئس کرسٹل اور شیشہ کہا جاتا ہے- یہ چینی یانمک کے بڑے دانے کے برابر کرسٹل کی شکل میںپاوڈر کی صورت میں ہوتاہے جسے باریک شیشے سے گزارکر حرارت دی جاتی ہے ۔اس نشے کیلئے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیاجاتاہے جبکہ عادی افراد اس کو ٹیکے کے ذریعے بھی جسم میں اتارتے ہیں-ہماری حکومت کی طرف سے اس ناسور کے خلاف ابھی تک اتنے اقدامات بھی اٹھائے نہیں گئے ہیں کہ کم ازکم تعلیمی اداروں کو اس لعنت سے پاک کیاجاسکے۔جن اسلام آبادکے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہم اپنے بچے اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجتے ہیںوہاں کرسٹل آئس کانشہ آج کل ایک فیشن بن چکاہے۔کراچی ہویا لاہور اور پشاور، تقریباً ہر بڑے شہرکے تعلیمی اداروں کے اندر بھی اور اس کے گرد ونواح میں بھی یہ نشہ دستیاب ہے اوراس کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈاکٹروںکے مطابق کرسٹل آئس کے استعمال سے وقتی طورپر بے شک خوشی اور مسرت کے جذبات پیداہوتے ہیں۔ انسان کی توانائی دگنی،حافظہ تیز اورہارمون ڈوپامین لیول ڈرامائی طورپر بڑھ جاتاہے تاہم نشہ اترنے کے بعدانسان تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتاہے۔اس نشے کاکچھ عرصہ بعدسب سے بھیانک نتیجہ یہ نکلتاہے کہ انسان پاگل پن اور خوف کا شکار ہوجاتاہے اورہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتاہے گوکہ ان کی مارنے کی سازش ہورہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس نشے کے قریب المیعاد اثرات میں ڈپریشن، گھبراہٹ، چڑچڑا پن، گمراہ کن خیالات اوروزن میں خطرناک حدتک کمی جبکہ بعیدالمیعاد اثرات میں بلند فشار خون، خون کی شریان کانقصان ،تشنج ،دل کی دھڑکن میں اضافہ، جگر، پھیپھڑوں اور گردوں کی بیماری، کمزوری یاداشت وغیرہ شامل ہیں۔کرسٹل آئس ہمارے تعلیمی اداروں میں اتنی سرایت کرچکاہے جہاں اس کے استعمال کرنے والوں میں حیران کن طور پر طالبات بھی شامل ہیں۔پچھلے سال حکمران جماعت کے وفاقی وزیر سیفران اینٹی نارکوٹکس شہریار آفریدی نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران انکشاف کیاتھا کہ اس شہر کے بڑے تعلیمی اداروں میں75فیصد لڑکیاں اور پینتالیس فیصد لڑکے آئس کرسٹل کا نشہ استعمال کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اداروں میں ہرچار میں سے تین طالبات اور دوطلباء کو اس ناسور کی لَت پڑگئی ہے ۔ وفاقی وزیر کے اس انکشاف کو اگر مبالغہ سمجھ لیں ، لیکن پھر بھی اتنا تو یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نصف طلباء اور طالبات منشیات کی اس لعنت میں ضرور مبتلا ہیں۔کہا جاتاہے کہ کرسٹل آئس کی بڑی مقدارہمسایہ ملک افغانستان سے یہاںاسمگل ہو رہی ہے جبکہ اس کے علاوہ ایران اور چین سے بھی یہ نشہ مختلف طریقوں سے یہاں پہنچ رہا ہے ۔کرسٹل آئس کے نشے میں مبتلا طالب علموں سے ایک انٹرویو کے دوران جب پوچھا گیا کہ وہ کس طرح اس نشے کے عادی بن گئے ہیں؟ ۔ چرس ، الکحل اورکرسٹل آئس جیسے منشیات کے علاوہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے قابل رحم حد تک اخلاقی گراوٹ اور لادین افکار کا بھی شکار ہیں۔تعلیمی اداروں سے منشیات کی لعنت کاخاتمہ اورطلباء کے اخلاق سنوارنے کیلئے اب بھی اگر ٹھوس اقدامات اٹھانے سے احتراز کیاگیا تو خاکم بدہن ہمارے روشن مستقبل کا یہ ضامن طبقہ ایک تاریک مستقبل کا پیش خیمہ بن سکتاہے۔کیا خوابیدہ حکام قوم کے اس بگڑتے ہوئے مستقبل کے بارے میں کچھ سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا ویسے مفت میں انکشافات کرنے کو کافی سمجھتے ہیں؟