وحشی کو صرف طاقت جھکاتی اور سپر انداز ہونے پر مجبور کر تی ہے۔ راجیو گاندھی کے سامنے سروقد کھڑے ضیاء الحق کے صرف ایک جملے نے جنگ ٹال دی تھی ۔ تصاویر تو سب آویزاں ہیں ۔پیلٹ گنوں سے چھلنی معصوم چہروں ، مقتل میں کھڑے کشمیر کے عالی ہمت رہنمائوں کے علاوہ انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے پاکستانی لیڈروں کی ۔ ایک سے دوسری شاہراہ تک ، یہ ایک دردناک منظر ہے ، بیک وقت جو اذیت ناک بے بسی اور ایثار کے جذبات اگاتا ہے ۔ امورِ کشمیر کے ممتاز ماہر ارشاد محمود مطمئن ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو حکومتِ پاکستان کر ہی رہی ہے ۔ ہر پاکستانی سفارت خانے میں چار پانچ افراد پر مشتمل کشمیری ڈیسک بنا دیا ہے ۔ فراوانی سے لٹریچر میسر ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن کی بجائے،اب کشمیر کمیٹی کے چئیرمین فخرِ امام ہیں ۔ چئیرمین بننے سے قبل فضل الرحمٰن فرماچکے تھے کہ ایک لاکھ شہیدوں کالہو نذر کرنے والے اہلِ کشمیر کے ایثار کو وہ جہاد نہیں مانتے ۔ جہاد تو افغانستان میں کارفرما ہے ، ملّا عمر کی قیادت میں ۔ بے نیاز تھے اور بے نیاز ہی رہے ۔ان سے پہلے نواب زادہ نصر اللہ خان تھے ، جو سب جماعتوں کو ساتھ لیے، ساری دنیا کی خاک چھانتے ، نگر نگر گھومتے اور احساس کا دیا جلانے کی کوشش کرتے رہے ۔ قومی سلامتی کے اداروں سے نواب زادہ نصر اللہ خاں رابطے میں رہتے ۔ تازہ ترین معلومات ان کے پاس ہوتیں۔ 1932ء میں سیاسی زندگی کا آغاز انہوں نے تحریکِ آزادی ء کشمیر سے کیا تھا ۔ ایک کمیٹی تھی، جس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے ۔ اس موضوع پہ جن کی نظمیں آج بھی لہو رلاتی ہیں ۔ آہ! یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟ پیپلز پارٹی اور پھر نواز شریف کے دور میں مولانا فضل الرحمٰن پورے ٹھاٹ سے عہدے پر براجمان رہے ۔ دنیا بھر میں وہ بھی گھومتے رہے مگر سفارتی مہم سے زیادہ یہ سیاحت تھی۔ اب فخرِ امام ہیں ۔ جسمانی تاب و توانائی توزیادہ نہیں ؛چنانچہ سمندر پار کم گئے بلکہ شاذ ہی ۔ ان کی بات مگر سنی جاتی ہے ۔ مغرب کے مزاج آشنا ہیں ۔ ان کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں ۔انگریزی پہ نواب زادہ نصر اللہ خاں بھی قادر تھے۔ علی گڑھ میں تعلیم پائی تھی ۔ پڑھنے لکھنے کے عادی تھے۔ ابوالکلام آزاد، عطاء اللہ شاہ بخاری او رچوہدری افضل حق سے لے کر سید ابو الاعلیٰ مودودی تک، کیسے کیسے اکابر کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ حکومتوں سے ٹکراتے رہے ۔ مرعوبیت چھو کر نہیں گزری تھی ۔ غور و فکر کے عادی تھے ۔ ترجیحات طے کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے ۔ مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دیتے ۔ فرمایا کرتے : کشمیر میرے دل میں بستا ہے کہ میری ابتدا یہیں سے ہوئی ۔ یہ انہیں کا شعر ہے اپنی شادابی ء غم کا مجھے اندازہ ہے روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے کشمیر میں آزادی کی تحریک نے 1931ء میں جنم لیا تھا، جب اسے مسلمان ہوئے صرف ساڑھے چار سو سال گزرے تھے ۔ایک ہزار برس پہلے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب الہند ‘‘ میں مورخ البیرونی نے لکھا : کوئی غیریہودی وادی میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ پھر ایک فقیر ایران سے چلا ۔ اس کا نام شاہ ہمدانؒ تھا ۔ پاکستان کے شمالی علاقوں او رکشمیر میں اللہ کے دین کا نور اسی سے پھیلا ۔اللہ کے آخری پیغمبرؐ سے پوچھا گیا کہ اللہ کہاں سما سکتا ہے ؟ فرمایا اور تو کہیں نہیں مگر قلبِ مومن میں ۔ شاہ ہمدان ایسے ہی تھے۔ اس زمین پہ قدم رکھا تو ہمیشہ باقی رہنے والے جمال و جلال کی بنیادیں فراہم کر دیں ۔ یہ وہی تھے جو ایران سے دستکاری کے ان سینکڑوں ماہرین کو لے کر آئے ، جن کے فنون آج کشمیر کی شناخت ہیں ۔ ہاتھ سے بنی ہوئی پشمینہ کی وہ چادریں کہ صدیوں سے دنیا کی نگاہ خیر ہ ہے ۔ پیپر ماشی کے وہ نمونے کہ دیکھیں تو بس دیکھتے ہی رہیں۔ کشمیر میں بویا شاہ ہمدان کا نور برگ و بار لاتا رہا ۔جہانگیر اور شاہ جہاں ایسے مغل بادشاہوں کے لیے کشمیر فقط ایک سیر گاہ تھا ۔ سب سے بڑا تحفہ مگر اورنگزیب عالمگیر نے دیا۔ شاید وہ واحد مغل تھا، جس نے کشمیر کی روح کو پہچانا ۔ موئے مبارک کہیں سے عنایت ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ یہ وادی میں رکھا جائے گا ۔ تب ایک کشمیری شاعر نے لکھا : آج سے کشمیر کی سرزمین حجاز کی ہم نفس ہو گئی ۔ وہی بات جو سپین کے بارے میں اقبالؔ نے کہی تھی ۔ ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امین ہے مانندِ حرمِ پاک ہے تو میری نظر میں پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں افسانہ اور شاعری نہیں ، یہ ایک مسلمہ تاریخی صداقت ہے کہ آزادی ء کشمیر کی تحریک میںرحمتہ اللعالمینؐ کے موئے مبارک بجائے خود ایک بنیادی کردار رکھتا ہے ۔ جب وہ تھک جاتے ہیں اور جب امید کے چراغ ٹمٹمانے لگتے ہیں تو درگاہِ حضرت بل کا رخ کرتے ہیں ؛حتیٰ کہ دیا جل اٹھتا ہے ۔ یٰسین ملک اور محمد صلاح الدین سمیت کتنے ہی کشمیری لیڈر اس ناچیز کے ساتھ عصرِ رواں کے عارف کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دو نکات درویش نے اجاگر کیے۔ ایک یہ کہ قوم پرستی اور جہاد دو الگ چیزیں ہیں ۔ جہاد کے گہرے اخلاقی تقاضے کسی حال میں نظر انداز نہیں کیے جا سکتے ۔ یہ انسانی روح کو اجالنے کا عمل ہے ۔ انتہا جس کی یہ ہے کہ کمال خوش دلی سے آدمی اپنی زندگی اللہ کی بارگاہ میں نذر کردے ۔یہی کلید ہے ، یہی دائمی حیات ہے ۔ ہمیشہ یہ تلقین بھی کی کہ بنیادی طور پر عسکریت سے نہیں بلکہ سلیقہ مند سیاسی جدوجہد سے آزادی کا آفتاب طلوع ہوگا ۔ جنگ سے گریز کرنے کی پاکستانی پالیسی بنیادی طور پر ایسی ہی دانائی کی مظہر ہے ۔ برّی فوج کے سابق سربراہ اور نئے چیف آف ڈیفنس سٹاف نے اس خواہش کا برملا اظہار کیا ہے کہ کاش کشمیری نوجوان پتھر کی بجائے رائفل اٹھا لیں تاکہ ہم ان کا صفایا کر سکیں ۔ بھارت کے نئے چیف آف آرمی سٹاف کا کہنا یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو کیمپوں میں رکھا جائے اور ذہنی غسل سے گزارا جائے ۔ بھارت کی مہلت تمام ہوئی ۔ اب وہ ٹوٹ رہا ہے اور لازماً اسے بکھر جانا ہے ۔ بڑی بڑی معاشی قوتیں اور وسیع و عریض ممالک ایک آدھ عشرے میں نہیں بکھرتے لیکن یہ عمل شروع ہو چکا ۔ دنیا کی کوئی طاقت اب اسے بچا نہیں سکتی ۔اس کا انجام سوویت یونین سے مختلف نہیں ہوگا کہ بھارت کے باطن میں پوشیدہ تنازعات اب بے نقاب ہونے کے لیے بے تاب ہیں ۔ افسوس ،پاکستان کی سفارتی مہم کمزور اور ناقص ہے ۔ اب تک سینکڑوں وفود کو دنیا بھر میں پھیل جانا چاہئے تھا ۔ موزوں ترین اقدام شاید یہ ہو کہ خاص طور پر کشمیر کے لیے ایک نائب وزیرِخارجہ مقرر کیا جائے ۔ تازہ خیالات اور عزم وارادے کا مشاہد حسین ایسا کوئی سفارتی ماہر ۔ کوئی سفارتی، کوئی سیاسی سلیقہ مند ۔شاہ محمود کسی کام کے نہیں ۔ ا س کام کے تو بالکل نہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستانی قیادت کو بدلتی ہوئی تاریخی صورتِ حال کا ادراک کم ہے ، بہت ہی کم ۔ آئے دن وزیرِ اعظم عمران خان کہتے ہیں : جنگ نہیں ہونی چاہئے ۔ جنگ تو واقعی برپا نہ ہونی چاہئے لیکن جب یلغار پہ تلے ہوئے دشمن کے سامنے کھڑا کوئی لیڈر یہ لہجہ اختیار کرتا ہے تو اس کا انجام چیمبر لین اور اس کے برطانیہ کا ساہوتا ہے ۔ وحشی کو صرف طاقت جھکاتی اور سپر انداز ہونے پر مجبور کر تی ہے۔ راجیو گاندھی کے سامنے سروقد کھڑے ضیاء الحق کے صرف ایک جملے نے جنگ ٹال دی تھی ۔