لاہور کے حلقہ این اے 133 کا نتیجہ توقع کے مطابق مسلم لیگ ن کی جیت کی صورت میں برآمد ہوا ہے لیکن اس نتیجے نے ملکی سیاست میں تبدیلی کے امکانات کا در کھول دیا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگی امیدوار پرویز ملک نے 89000 جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار چودھری اسلم گل نے 5500 ووٹ لیے تھے۔ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے امیدوار اعجاز چودھری تھے جنہوں نے 77000 ووٹ حاصل کئے۔ پرویز ملک کی وفات کے بعد حلقہ این اے 133 میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان بھرپور مقابلے کی توقع تھی لیکن حکومتی جماعت کی صفوں میں موجود بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے جمشید اقبال چیمہ اور ان کی کورنگ امیدوار مسرت چیمہ دونوں کے کاغذات نامزدگی اعتراض لگا کر مسترد کر دیئے گئے۔ اس کوتاہی کے نتیجے میں تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہوا اور اکثر وٹروں نے پولنگ سٹیشن جانے کی زحمت تک نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ ساڑھے چار لاکھ ووٹر والے حلقے میں 80 ہزار کے لگ بھگ کل ووٹ ڈالے گئے۔ 254 پولنگ سٹیشنوں سے موصول ہونے والے نتائج کے مطابق مرحوم پرویز ملک کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک نے 46811 ووٹ جبکہ پیپلزپارٹی کے اسلم گل نے 32313 ووٹ حاصل کئے۔ این اے 133 کے ضمنی انتخاب کو کئی حوالے سے عوامی رجحانات کا معیار تصور کیا جا سکتا ہے۔ یہ حلقہ شہر کی ان آبادیوں پر مشتمل ہے جہاں نچلے اور متوسط طبقات کی اکثریت ہے۔ تاریخی طور پر یہاں مزدور تنظیموں کا اثر و رسوخ رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد پنجاب کے دیگر شہروں کی طرح لاہور اور لاہور کا یہ حلقہ پارٹی کی طرف سے نظر انداز ہوا۔ مسلم لیگ ن نے یہاں دولت کا استعمال کیا۔ مخصوص خاندانوں کو نوکریاں دیں۔ ایل ڈی اے‘ پی ایچ اے‘ کارپوریشن‘ پارکنگ کمپنی‘ ٹرانسپورٹ کمپنی اور صوبائی محکموں میں گھوسٹ ملازمتیں دیں۔ یہاں سے اسحاق ڈار‘ نصیر بھٹہ‘ وحید عالم خان اور پرویز ملک کامیاب ہوتے رہے۔ مسلم لیگ ن نے پورے لاہور کی طرح اس حلقے میں بھی پارٹی تنظیم کو اچھے طریقے سے استوار کیا۔ یوں رفتہ رفتہ یہاں سے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک کم ہوتا گیا۔ 2018 ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کا خوب مقابلہ کیا۔ اس بار تحریک انصاف میدان میں نہ تھی اس لیے مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کئی خامیوں کا شکار رہی۔ شائستہ پرویز عدت میں ہونے کی وجہ سے خود وٹروں تک نہ پہنچ سکیں‘ مسلم لیگ کی قیادت اور پارٹی کی صفوں میں اختلاف نے ن لیگ کے حامیوں کو بد دل کر دیا۔ سب سے بڑی خرابی یہ دکھائی دی کہ عوام نے لیگی قیادت کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف شروع کی گئی نفرت انگیز مہم کو مسترد کردیا‘ مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دو اور مہنگائی کے خلاف عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ حلقہ کے ووٹر سمجھتے ہیں کہ لیگی قیادت نے نچلے طبقات کا استحصال کیا۔ ہر بار نچلے طبقے سے امیدوار متعارف کرانے کی بجائے حلقے سے باہر کے دولت مند افراد کو عوام پر مسلط کر دیا۔پیپلزپارٹی نے مقامی امیدوار کو ٹکٹ دیا‘ گھر گھر جا کر لوگوں سے رابطہ کیا‘ برادریوں اور دھڑوں کو حمایت کے لیے آمادہ کیا‘ پاکستان عوامی تحریک سے مدد لی۔ اسی طرح سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف‘ سندھ سے شہلا رضا اور ملک کے دیگر شہریوں سے پارٹی رہنما اسلم گل کی انتخابی مہم میں شرکت کے لیے مستقل لاہور میں مقیم رہے۔ محنت اور رابطوں کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اس تاثر کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی کہ اس کی پنجاب سے دوری ختم ہو چکی ہے۔ نتائج بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا ووٹر پارٹی قیادت کے فعال ہونے کا منتظر ہے۔این اے 133 میں ضمنی انتخاب میں چونکہ حکومتی جماعت شامل نہ تھی اس لیے دونوں اپوزیشن جماعتوں کو ریاستی اور سرکاری وسائل کے استعمال کا گلہ نہیں ہوا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن ایک طویل عرصے کے بعد سرکاری مشینری کی مدد کے بنا انتخاب لڑ رہی تھی اسی لیے وہ خاطر خواہ مارجن سے نہ جیت سکی۔ انتخابی مہم کے دوران انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے پر ووٹوں کی خریداری کا الزام لگاتی رہیں‘ اس سلسلے میں کچھ وڈیو بھی سامنے آئیں۔ منتخب نمائندوں پر انتخابی مہم چلانے کی پابندی ہے لیکن دونوں جماعتوں نے اس پابندی پر عمل نہ کیا‘ اور بھی کئی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ الیکشن کمیشن کو معمولی جرمانوں سے بڑھ کر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ادارہ اپنے ضابطوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتا تو اس کی افادیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ لاہور کے ضمنی انتخاب میں ٹرن آئوٹ مایوسی کی حد تک کم رہا۔ جیتنے والی جماعت جیت کی خوشی میں مست ہے لیکن تین بار مرکز اور چھ بار پنجاب میں حکومت کے باوجود وہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کو تیار نہیں ۔ عوام سیاسی جماعتوں میں موجود موروثی اقتدار کے خلاف ہیں‘ سیاسی جماعتیں عوام کی بجائے اشرافیہ کے مفادات کی غلام بن چکی ہیں۔ عام لوگوں کی تعلیم‘ صحت‘ رہائش اور روزگار سے متعلق سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ساری سیاست ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے‘ نازیبا بیانات اور قابل اعتراض لب و لہجہ اختیار کرنے‘ آڈیو اور ویڈیو سکینڈل بنانے اور حکمران خاندانوں کی کرپشن کو تحفظ دینے کے گرد گھومتی ہے۔ یہ روش ناپسندیدہ ہے اور پاکستان کے عوام اسے مسترد کر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات قریب ہیں‘ اس کے بعد عام انتخابات ہونا ہیں۔ این اے 133 میں عوام نے جس سیاسی رویے کا مظاہرہ کیا ہے اسے رہنما بناتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو داخلی ڈھانچے میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ ضمنی انتخاب کے دوران میدان سے باہر ہونے والی تحریک انصاف‘ جیتنے والی مسلم لیگ ن اور حیران کن کارکردگی دکھانے والی پیپلزپارٹی کے لیے یکساں سبق موجود ہے۔