سرینگر کے علاقے صورہ میں نماز جمعہ کے بعد کشمیری کرفیو توڑ کر سڑکوں پر آ گئے، مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ دوسری جانب امریکہ، جرمنی ‘فرانس اور انٹرنیشنل ایمنسٹی نے کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کی 9اپوزیشن جماعتوں نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کو مودی حکومت چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔اسی بنا پر کانگریس لیڈر راہول گاندھی سمیت کسی کو بھی وادی کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کے بارہ رکنی وفد کو سری نگر ایئر پورٹ سے زبردستی دہلی واپس بھیج دیا گیا۔5اگست 2019ء کو بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کی دفعہ 370کو ختم کر کے جموں و کشمیر اورلداخ کی شناخت میں قدغن لگانے کے بعد سے لیکر وادی کے حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ وادی میں انٹرنیٹ سروس معطل ،موبائل بند، سیاسی قیادت پابند سلاسل جبکہ عوام کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان شروع دن سے ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ کھڑا ہے لیکن 5اگست کے بعد سے سفارتی محاذ پر پاکستان نے اس معاملے پرجو کامیابیاں سمیٹی ہیں ماضی میں ان نظیرنہیں ملتی۔ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم سے لے کر عالمی برادری تک ہر جگہ پاکستان کشمیریوں کی آواز بنا ہوا ہے، جس کے باعث عالمی برادری بھارت پر کشمیریوں کی آزادی کے لئے دبائو ڈال رہی ہے۔ فرانسیسی صدر نے مودی پر زور دے کر کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر حل کرے، جبکہ وائٹ ہائوس کے مطابق ٹرمپ ایک بار پھر کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے بھی کشمیر کے زمینی حقائق اجاگر کر کے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ کشمیریوں کو جھکانا ہندو انتہا پسندوں کا دیرینہ خواب تھا جس میں وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے حالانکہ 5اگست کے بعد بھارت نے کشمیر پر وہ مظالم ڈھائے ہیں جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔75ء کی ایمرجنسی میں تو کشمیریوں کو صرف جھکنے کا کہا گیا تھا لیکن اب تو انہیں رینگنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔20دن سے کشمیریوں کا محاصرہ جاری ہے، اشیاء ضروریہ کا ذخیرہ بھی ختم ہو چکا ہے، کشمیر کے گلی کوچے جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔پہلے تو صرف حریت رہنما ہی جدوجہد آزادی کے لئے میدانِ عمل میںتھے لیکن 5اگست 2019ء کے بعد وہ جوانوں جن کی زندگی آوارگی میں صرف ہوئی وہ بھی اس جانب متوجہ ہو چکے ہیں۔ بھارتی آئین کے وفادار عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی بہتی گنگا میں آشنان کر لیا ہے اور ان کے حواری بھی پچھلی باتوں سے توبہ کر کے قافلہ حریت میں شامل ہو چکے ہیں، جس کے بعد کشمیر کے بارے سینکڑوں پردہ پوش حقیقتوں کے نقاب الٹے جا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے نے انکشاف کیا ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی کے لئے آر ایس ایس کے 50ہزار غنڈوں نے آپریشن شروع کر دیا ہے، نہتے کشمیریوں نے ایسے 170غنڈوں کو ہلاک بھی کیا ہے، ان حالات میں اقوام متحدہ کا خاموش رہنا بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار بھی عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے جھوٹا آپریشن کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دراصل بھارتی میڈیا بھی تسلسل کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ 100کے لگ بھگ دہشت گرد وادی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ بھارتی میڈیا کشمیریوں کو ہی دہشت گرد ثابت کر کے ان کی نسل کشی کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ بارود ،آگ اور خون کا سیل بلاتھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ قاتل کا بازو تھکتا ہے نہ ہی اس کے دل میں رحم کا جذبہ ابھرتاہے ۔ بھارتی عفریت کو لگام ڈالنے کے لئے پاکستان کے سیاستدانوں کو بھی سنجیدہ کوشش کرنا ہونگی۔ ابھی تک پاکستان کی پارلیمانی پارٹیوں کی طرف سے کشمیریوں کے پاس کوئی یکجہتی کا پیغام نہیں گیا،صرف حزب اقتدار ہی اکیلے عالمی برادری کو بھارتی مظالم سے آگاہ کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پہل کرے اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر پارلیمانی وفود دنیا بھر میں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ مزید موثر انداز میں کشمیریوں کی آواز کو عالمی برادری تک پہنچایا جائے۔ آزاد کشمیر کے صدر نے بھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ جنگ کا آغاز اگر بھارت نے کیا تو ختم ہم کرینگے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ کھڑا ہے لیکن اب ہمیں روایتی انداز سے ہٹ کر بھارتی درندگیوں سے عالمی برادری کو آگاہ کرنا چاہیے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم جنیو سائیڈ واچ نے کشمیریوں کی نسل کشی بارے الرٹ جاری کیا، اسی رپورٹ کو اجاگر کیا جائے تاکہ عالمی برادری کشمیریوں کی نسل کشی کا نوٹس لے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے ایک انٹرویو میں کشمیریوں کی نسل کشی کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔ خدانخواستہ بھارت نے اگر ایسی حماقت کی تو پھر دو ایٹمی قوتوں میں جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ یہ جنگ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات اس خطے سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ مودی سرکار نے ہٹلر کا روپ دھار رکھا ہے۔ اس لئے اس سے کچھ بھی بعید نہیں، لہٰذا عالمی برادری بروقت نوٹس لے کر اس خطے کو تباہی سے بچائے۔ اگر عالمی قیادت نے پہلے کی طرح خاموشی اختیار کئے رکھی تو پھر خطے کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔