چند ہفتے قبل ملک میں پیدا ہونے والے چینی و گندم بحران کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ رپورٹ کو فوری طور پر عام کرنے کی ہدایت کر کے وزیر اعظم عمران خان نے یہ مثال قائم کی ہے کہ سیاسی مصلحتیں شفاف طرز حکمرانی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتیں۔ اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم اس رپورٹ پر کسی نوع کی مزید کارروائی سے قبل 25اپریل تک موصول ہونے والے فرانزک آڈٹ کا انتظار کریں گے۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اس رپورٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔ چینی اور گندم بحران کی تحقیقات پر متعین انکوائری کمیٹی نے جہانگیر ترین‘ خسرو بختیار کے بھائی، چودھری منیر‘ شمیم احمد اور دیگر حکومتی و اتحادی شخصیات کے علاوہ شریف خاندان اور اومنی گروپ کی شوگر ملز کو اس معاملے میں ملوث بتایا ہے۔ انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے دبائو میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے برآمد کی اجازت دی۔ان شوگر ملز کو اس وقت سبسڈی دی گئی جب مقامی مارکیٹوں میں چینی کی قلت ہو رہی تھی اور نرخوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا تھا۔ آٹا اور گندم بحران کے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غلط حکمت عملی اور فیصلوں کی وجہ سے آٹا بحران پیدا ہوا۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2016-17ء اور 2017-18ء کے درمیان ملک میں چینی کی پیداوار قومی ضرورت سے کہیں زیادہ تھی۔ اس لئے چینی برآمد کر دی گئی۔ اس وقت پاکستان کی اپنی ضرورت کے لئے سالانہ 5.2ملین میٹرک ٹن چینی کی ضرورت ہوتی ہے۔2016-17ء کے دوران پاکستان میں 7.08ملین میٹرک ٹن چینی تیار کی گئی جبکہ 2017-18ء کے عرصہ میں تیار کی گئی چینی کی مقدار 6.63ملین میٹرک ٹن تھی۔ اس اضافی پیداوار کے باوجود ملک میں چینی کی قلت پیدا کی گئی اور سابق حکومت اس کا جواز یہ پیش کرتی رہی کہ پاکستان میں چینی کی قیمت عالمی مارکیٹ سے کم ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ دسمبر 2019ء اور جنوری 2020ء میں گندم بحران کی وجہ سرکاری سطح پر گندم خریداری کی ناقص حکمت عملی ہے۔ سرکار نے ہدف سے 35فیصد کم گندم خریدی۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کا کردار خاص طور پر زیر غور آیا جس نے اپنے خریداری ہدف کے مطابق صفر خریداری کی حالانکہ اسے ایک ملین ٹن گندم خریدنا تھی۔ پنجاب نے چار ملین میٹرک ٹن خریدنے کی بجائے 3.315ملین میٹرک ٹن گندم خریدی۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ پاسکو نے بھی اپنے ہدف 1.1ملین میٹرک ٹن کی جگہ 0.679ٹن گندم خریدی۔ گندم خریداری ہدف سے کم ہونے کے معاملے نے ملک میں پہلے سے طلب و رسد کی تنی ہوئی رسی کو مزید کھینچائو کا شکار کر دیا۔ صوبوں کی جانب سے جب گندم اہداف سے کم خریدی جائے تو پاسکو کا ادارہ اپنی خریداری بڑھا دیتا ہے۔ اس سے فوڈ سکیورٹی کی صورتحال اطمینان بخش رہتی ہے۔ رپورٹ میں اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہدف سے کم گندم خریداری کے باوجود وزارت خوراک قومی رابطہ کمیٹی کو باور کراتی رہی کہ پاسکو نے گندم خریداری کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ وزارت فوڈ سکیورٹی نے ہی وفاقی حکومت کو مشورہ دیا کہ ملک میں گندم کا ذخیرہ مقامی ضروریات کے لئے وافر ہے لہٰذا گندم برآمد کی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں پنجاب میں کئی انتظامی سطح کے غلط فیصلوں اور افسران کے مسلسل تبادلوں کو بھی گندم بحران کی وجوہات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کو سامنے لائینگے۔ اطلاعات کے مطابق بعض حلقوں نے اس رپورٹ کو عام کرنے کی مخالفت کی تاہم وزیر اعظم چاہتے تھے کہ انہوں نے اپنی ساری سیاسی جدوجہد جس نقطے کو محور تسلیم کر کے جاری رکھی اس پر کسی مصلحت کا مظاہرہ نہ کریں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں جن افراد اور خاندانوں کا نام آیا ہے اگرچہ ان میں ماضی کے حکمران بھی حسب معمول شامل ہیں لیکن وزیر اعظم کیلئے اپنے انتہائی قریبی سمجھے جانیوالے افراد کے ناموں کو عیاں کرنا بلا امتیاز احتساب کے حوالے سے ان کے عزم اور مضبوط ارادے کا مظہر ہے۔جن شوگر ملوں اور شخصیات کا تحقیقاتی رپورٹ میں نام آیا ہے وہ پہلے بھی کئی تحقیقاتی رپورٹس میں قصوور وار کے طور پر سامنے آتی رہی ہیں۔ معاملہ صرف ان شخصیات اور خاندانوں کا نہیں۔ متعلقہ سرکاری اداروں اور وہاں بیٹھے افسران بھی اس کام میں ملوث ہیں۔ یہ ایک نیٹ ورک ہے جس سے کئی لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ اس دھندے کا مستقل کردار ہیں۔ رپورٹ آنے کے بعد اس پر قانون کے مطابق پیشرفت جاری رہنے کی امید ہے۔ اس بار توقع ہے کہ سابق حکومتوں کی طرح اس معاملے کو فراموش نہیں کیا جائے گا بلکہ منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے حکومت استقامت کا مظاہرہ کریگی۔ ایک ضروری چیز یہ ہو گی کہ سرکاری اداروں اور نظام میں جو خرابیاں سامنے آتی رہی ہیں ان کو دور کرنے کیلئے ضروری قانون سازی کی جائے۔ جہاں صوبائی یا وفاقی حکومت کی انتظامی صلاحیت کمزور دکھائی دی ہے۔ وہاں اس کمزوری کو دور کیا جائے۔واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ پر وزیر اعظم کا ردعمل خاصا حوصلہ افزا ہے۔ حکومت کے اتحادیوں اور ان اراکین کو چاہیے کہ وہ قانونی عمل کو آگے بڑھنے کا موقع دیں۔ نظام کی خرابی ریاست کی کمزوری کا باعث بنتی ہے اور ریاست کو خطروں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ چینی اور آٹا بحران کے ذمہ داروں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ عمران خان کی حکومت کا معاملہ نہیں کئی طرح کے چیلنجوں سے نبرد آزما پاکستان کے سخت جان اور بیدار عوام کی خواہش ہے کہ نظام کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔