پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان سٹرکچرل ریفارمز ایجنڈہ پر سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کے لئے آئی ایم ایف پاکستان کو 6ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج دے گا۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو یہ پیکیج فراہم کر دیا جائے گا۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے شیخ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ تمام طے شدہ امور پر بروقت عملدرآمد کے ساتھ مشروط ہے۔ آئی ایم ایف حکام کے مطابق پاکستان کے لئے مالی سال 2019-20ء کا بجٹ مالیاتی حکمت عملی کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس بجٹ میں خسارے کو جی ڈی پی کے 0.6فیصد رکھنے کے لئے ٹیکس محصولات کو بڑھانا ہو گا۔ ٹیکس محصولات میں اس صورت اضافہ ہو سکتا ہے جب مختلف شعبوں کو دیا گیا استثنیٰ ختم کر دیا جائے۔ خصوصی مراعات بند ہو جائیں اور ٹیکس انتظام میں بہتری لائی جائے۔ آئی ایم ایف کی اس تجویز کا مطلب ہے کہ پاکستان اس بجٹ میں اضافی 600ارب روپے کے ٹیکس جمع کرے۔ اس طرح بجٹ خسارہ 1.9فیصد کی موجودہ شرح سے کم ہو کر 0.6 فیصد کی سطح تک لایا جا سکے گا۔ آئی ایم ایف سے طے معاہدہ کی رو سے حکومت نے توانائی کی قیمتوں میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح مزید ٹیکس جمع کرنے‘ کرنسی کی شرح تبادلہ کو مارکیٹ کی صوابدید پر چھوڑنے، سٹیٹ بنک کو مکمل خود مختاری دینے اور شرح نمو کی بجائے افراط زر پر توجہ مرکوز رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔پاکستان کی معیشت پیداواری صلاحیت میں کمی‘ برآمدات کی سطح کم ہونے اور قرضوں کے بھاری بوجھ کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ معیشت کو درست راہ پر لانے کا سادہ اور عام فہم طریقہ ان تینوں خرابیوں کو درست کرنا ہے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے، روزگار کے مواقع زیادہ ہوں گے اور بین الاقوامی اداروں کی مداخلت میں کمی ہو گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی سادہ سی بات گزشتہ حکومتوں کو کیوں سمجھ نہ آئی۔ سابق حکومتوں نے بین الاقوامی حالات سازگار اور پاکستان کے حق میں ہونے کے زمانے میں توانائی کے سستے منصوبوں اور برآمدات کو بڑھانے کے لئے کوئی موثر حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ ہر برس بجٹ پیش کرنے میں مشکل پیش آئی اور آئی ایم ایف جیسے اداروں سے قرض لے کر کام چلا لیا جاتا۔ ہر سال آئی ایم ایف قرضوں کے ساتھ کچھ شرائط منسلک کر دیتا۔ یوں بتدریج ریاست پاکستان کی معاشی آزادی کا حجم کم ہونے لگا اور آخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ شرائط ہماری سیاسی خود مختاری کو متاثر کرنے لگی ہیں۔ اس خود مختاری کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستان کے عوام ووٹ کے ذریعے مختلف جماعتوں کو تفویض کرتے رہے ہیں۔ مگر‘ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ حکومتوں کی کارکردگی اور سنجیدگی کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے پڑھے لکھے،لائق اور دیانتدار ماہرین کو اپنی صفوں میں داخل نہیں ہونے دیا۔ وہ ہونہار افراد جو قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے امتیازی حیثیت سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں وہ کسی سیاسی جماعت میں منصوبہ بندی‘ ٹائون پلاننگ‘ تعلیم‘ صحت اور معاشی امور کے ماہر کے طور پر کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ تحریک انصاف کا المیہ ہے کہ عمران خان کی بے لوث کوشش کے باوجود ابھی اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک پاکستانی شہری ریاستی امور میں ذمہ دار حیثیت سے کام کرنے سے محروم ہیں۔ عمران خان کے قابل اعتماد ساتھی اسد عمر نے بطور وزیر خزانہ جو بہتر سمجھا وہ کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نے معاشی بحالی کے لئے مددگار مشاورتی کونسل بھی قائم کی۔ خود وزیر اعظم معاشی خرابیوں کی بنیاد کو سمجھتے ہیں۔ اسد عمر سابق حکومتوں کے معاشی وعدوں اور قرض کے بوجھ سے نجات کے لئے مقامی سطح پر اصلاحات کے حق میں تھے۔ مشکل یہ ہوئی کہ مقامی انتظامی مشینری اصلاحات پر عملدرآمد کے قابل نہیں اور اس مشینری نے اپنے مفادات کو ریاستی مفادات سے زیادہ عزیز بنا رکھا ہے۔ مشکل فیصلوں کا اثر فوری ہوا اور ملک میں مہنگائی تیزی سے بڑھی‘ سرمایہ کار مضطرب ہو گئے۔ اس صورت حال میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نئے قرض کی بات چیت کے لئے تجربہ کار ٹیم کی ضرورت تھی جو قرض کی شرائط کا تجزیہ کرنے اور پھر اصلاحات پر عملدرآمد کی استعداد سے لیس ہو۔ حکومت کی نئی معاشی ٹیم مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقرکی سربراہی میں فعال ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ان کے ہم خیال افراد پر مشتمل ٹیم بنا کر مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس ٹیم کے اراکین کو قرضوں میں جکڑی معیشت کو بحال کرنے کا تجربہ ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا خود عالمی مالیاتی اداروں میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رضا باقر آئی ایم ایف کے مقامی سربراہ کے طور پر مصر میں لگ بھگ ایسے حالات سے ہی نبرد آزما تھے جس طرح ان دنوں پاکستان میں دیکھے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹیکس امور کے ماہر شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین تعینات کیا ہے۔ ان کی تعیناتی پر تاجر حلقوں نے اعتماد ظاہر کیا ہے۔ وزیر اعظم کی یہ نئی ٹیم دراصل آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کی قابلیت رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ شبر زیدی اگر 600ارب روپے کے نئے ٹیکس جمع کر لیتے ہیں تو بیل آئوٹ پیکیج کی رقم گزشتہ قرضوں کی طرح قوم کے لئے شدید اذیت کا باعث نہیں ہو گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا حالیہ سلسلہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس قدر طویل اور تفصیلی مذاکرات کسی حکومت نے نہیں کئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نئے قرضوں کے معاملے پر انتہائی احتیاط سے کام کر رہی ہے۔ حکومتی زعما کا کہنا ہے کہ صرف امرا سے سبسڈی واپس لی جائے گی۔ ایسا صرف زبانی دعویٰ کافی نہیں‘ پاکستان میں کم آمدنی والے طبقات بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے جو جوکھم اٹھا رہے ہیں انہیں حکومت کی طرف سے دی گئی مراعات دکھائی بھی دینا چاہئیں۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ بیل آئوٹ پیکیج کی رقم کے درست استعمال کو یقینی بنائے اور ان خدشات کو غلط ثابت کرے جن کا اظہار اپوزیشن حلقے کر رہے ہیں۔