سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور اپریل میں یہ 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔اسٹیٹ بینک کے مطابق اپریل میں ترسیلات زر گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد زائد رہیں۔مالی سال 2021 میں جولائی سے لے کر اپریل تک مجموعی طور پر بیرونِ ملک مقیم ورکرز کی جانب سے ترسیلات زر 24 ارب 20 کروڑ ڈالر کی بے مثال سطح تک جا پہنچیں جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں 29 فیصد زائد ہیں۔مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ یہ حجم پورے مالی سال 2020 کی ترسیلات زر سے بھی ایک ارب ڈالر زائد ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔جولائی تا اپریل سب سے زیادہ غیر ملکی رقوم سعودی عرب سے بھجوائی گئیں جو 6 ارب 40 کروڑ ڈالر ہیں۔اس کے بعد متحدہ عرب امارات سے 5 ارب 8 کروڑ ڈالر، برطانیہ سے 3 ارب 33 کروڑ ڈالر اور امریکا سے 2 ارب 22 کروڑ ڈالر موصول ہوئے۔حکومت اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے فعال پالیسی اقدامات نے رسمی ذرائع سے رقوم کی آمد کی حوصلہ افزائی کی۔علاوہ ازیں کووِڈ 19 میں سرحد پار محدود سفر، عالمی وبا کے دوران پاکستان میں بیرونِ ملک سے منتقلی، منظم زرمبادلہ مارکیٹ کی صورتحال اور عید سے متعلق آمدنی نے اس سال ترسیلات زر کی ریکارڈ سطح میں اضافہ کیا ہے۔ان سب کے باوجودحکومت مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ مہنگائی یقیناً حکومت کی اپنی پالیسیوں کے نتیجہ میں بڑھی ہے جس کا روٹ کاز آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عملدرآمد ہے۔ چنانچہ جب تک حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ بندھی رہے گی اس کیلئے نہ چاہتے ہوئے بھی پٹرولیم مصنوعات اور بجلی‘ گیس کے نرخ بڑھانا مجبوری بنی رہے گی۔اس عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے تو بجلی کے نرخ مزید بڑھانے کیلئے بھی دبائو ڈالا جارہا ہے جبکہ حفیظ شیخ نے تو اپنے دور میں سٹیٹ بنک کو خودمختاری دلوا کر اسے آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے والے اسکے ایک ذیلی ادارے میں تبدیل کردیا تھا۔ ملک کی اس گھمبیر اقتصادی صورتحال میں شوکت ترین نے جو ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو سدھارنے اور مربوط بنانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ماضی میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے آئی ایم ایف کے معاملات میں ان کا عمل دخل بھی رہا ہے‘ اقتصادی اور مالی اصلاحات کے عزم کے ساتھ وزیر خزانہ کے منصب پر فائز ہونا قبول کیا ہے تو قومی معیشت کو صحیح ڈگر پرگامزن کرنا اور عام آدمی کو کسمپرسی سے نجات دلانا ان کیلئے ایک چیلنج ہے۔ اس وقت وہ پی ٹی آئی حکومت کے تیسرے قومی بجٹ کی تیاریوں میں ہیں جس کے دوران انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس پر نظرثانی کا تقاضا کیا ہے تو یقیناً انہوں نے اقتصادی بوجھ تلے دبے عوام اور ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات دلانے کا ہی عزم باندھا ہے۔ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا کہ وہ اپنے اس مشن میں کیسے اور کس حد تک سرخرو ہوتے ہیں تاہم انہوں نے اصلاح احوال کا بیڑا تو اٹھا لیا ہے۔ اس وقت وہ وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے حکومت کا اہم حصہ بھی ہیں ،اس لئے وہ آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی یا ردوبدل کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ دراصل پی ٹی آئی حکومت ہی کی کامیابی ہوگی۔ انہیں اس معاملہ میں فری ہینڈ ملے گا تو توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی فہم و بصیرت سے ملک کی معیشت پر آئی ایم ایف کی ناروا شرائط کی شکل میں پڑے آسیب کے سائے سے خلاصی دلانے میں کامیاب ہو جائینگے۔ اب بجٹ آنے والا ہے اب تک کی اطلاعات کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 سے 20 فیصذ اضافے کی تجویز ہے۔ سرکاری ملازمین او ر حکومت میں کچھ عرصے قبل ایک معاہدہ ہوا تھا کیونکہ تین سال سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھ رہی تھی تو سرکاری ملازمین نے احتجاج کیا جس پر فوری طور پر عبوری طور پر تنخواہیں بڑھائی گئیںاس وقت ملازمین کے ساتھ ایک فارمولا بھی طے پایا گیا تھا جسے اس بجٹ میں شامل کیا جانا تھا پنشن والوں کے لئے خبر ہے کہ پنشن کے لئے بنیادی تنخواہ کو 25 سال کی مدت تک منجمد کیے جانے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں مہنگائی اچھی خاصی بڑھ چکی ہے۔ کوویڈ کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو چکی ، پہلا سال کچھ سخت تھا حکومت کے پاس جو ریسورس تھے انہیں کوویڈ کے مقابلے کے لئے ڈائیورٹ کرنا تھا کیونکہ وینٹی لیٹرز،ٹسٹنگ کٹس،ادویات اور دیگر سامان خریدنا تھا اور اس میں آ ئی ایم ایف نے 1.4 بلین ڈالر دیے تھے ۔ یہ مشروط تھا کہ یہ پیسے صرف سوشل سیفٹی اور کوویڈ پر خرچے جائینگے۔ اس میں سے بھی 1.1 بلین ڈالر وہ احساس پرو گرام کے ذریعے جو 15 ملین گھرانوں میں بانٹے گئے 12 ہزار فی گھرانے کے لئے وہیں خرچ کرنے کی کوشش کی گئی کہ جن کی کم آمدنی ہے ان کو یہ پیسے دیے جائیں اس بار حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے اور اس بار تنخواہ پر پیسے خرچ کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نا گزیر ہو چکا ہے تاکہ سرکاری ملازمین مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں، دوسرے کوویڈ کی وجہ سے جو قوت خرید میں کمی آئی ہے ،اس کا ریلیف مل سکے۔اب بجٹ میں ہو سکتا ہے ،گریڈ 20 یا 21 والے ان کی تنخواہ میں کم اضافہ ہو اور کم اسکیل والوں کی تنخواہ میں زیادہ اضافہ ہو گا اور اس میںآئی ایم ایف نے اجازت دیدی ہے۔اس کے علاوہ پوری دنیا میں دو باتیں جنہیں اپنایا گیا ایک جو پنشن فنڈ ہوتے ہیں انہیں کسی جگہ انویسٹ کیا جاتا ہے تاکہ جب ایک ملازم 25 یا 30 سال بعد فارع ہو ان کے پیسے کہیں انویسٹ ہو رہے ہوں اور ملازم کو اس کا منافع مل رہا ہو۔ پاکستان میں ایسی کوئی اسکیم نہیں تھی پنشن فنڈ کو کہیں بھی انویسٹ نہیں کیا جاتا۔دوسرا یہ رواج بھی آچکا ہے کہ ملازم حصہ ڈالتے ہیں اور کچھ حصہ مالک ڈالتے ہیں اور اس کو ملا کر کہیں انویسٹ کردیا جاتا ہے آخر میں وہ ایک اچھی خاصی رقم بن جاتی ہے۔لیکن پاکستان میں ایسی کچھ نہیں ہو رہا ، ابھی تو ہم کہتے ہیں کہ ہم قرضے لیتے ہیں قرضے اتارنے کے لئے ،کسی زمانے میں ہم کہتے تھے کہ ڈیفنس پر سب سے زیادہ پیسے خرچ ہو رہے ہیں، 9 سال کے بعد پنشن سب سے زیادہ خرچے والا حصہ بن جائے گا، اسی لئے اس میں ریفارم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو نئے امپلا ئز ہیں جنہوں نے سرکاری جاب میں اب آنا ہے یا پچھلے دو تین سالوں سے آئے ہیںہیں ان کے لئے نئی اسکیم لا ئی جائے گی لیکن جو سینئر ہیں انہیں پرانے طریقے کے مطابق ہی پنشن دی جائے۔ پے اینڈ پنشن کے طریقے کو اچھے طرح سے مینیج کرنا کہ جب لوگ اپنی جوانی حکومت کے کاموں میں صرف کر کے گھر جائیں تو انہیں کچھ اچھے فائدے ملیں، اس میں ان کی بہتری ہو اور حکومت پر بھی کم سے کم بوجھ ہو ۔حکومت اس پر اچھی طرح سے غور کر رہی ہے ،ایسا نہ ہو کہ جلدبازی میں کچھ فیصلے ہوں جن کا غلط امپیکٹ پڑے تو اس پر اچھی خاصی سوچ و بچار ہو رہی ہے۔