وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سابقہ دور میں قرض لینے والوں کو سزا ملنی چاہئے،حالانکہ یہی بات آج کیلئے بھی ہے ،پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول کا معاہدہ ہوا ، جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب 5 کروڑ 90لاکھ ڈالر قرض ملے گا۔ آئی ایم ایف بورڈ سے 1.059ارب ڈالر کی اگلی قسط کی منظوری سے پہلے سٹیٹ بینک کی خودمختاری ، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں اضافے ، ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے سمیت پانچ اہم پیشگی شرائط پوری کرنا ہوں گی ، پٹرولیم لیوی چار روپے ماہانہ بڑھائی جائیگی اور اسے 30روپے تک لے جایا جائیگا ۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے ملک میں مہنگائی کا مزید طوفان آئے گا اور عام آدمی جو کہ پہلے ہی سخت مالی مشکلات کا شکار ہے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ ملک میں ترقی کی رفتار پہلے ہی کم ہے جبکہ آئی ایم ایف نے یہ شرط عائد کی ہے کہ ترقیاتی پروگرام میں 2سو ارب کی کمی جائے گی ، یہ 2سو ارب ظاہر ہے کمزور اور پسماندہ علاقوں کی ترقی سے منہا ہوں گے ۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب بھی اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے ، اسلام آباد ، لاہور، کراچی یا دیگر بڑے شہروں کو کبھی کٹ نہیں لگا ، جب بھی کلہاڑا چلا تو کمزور علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں پر چلا ہے جو کہ ظلم ہے، نہ صرف یہ کہ اس روش کو ختم ہونا چاہئے بلکہ اس جیسی شرائط کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہئے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوگا، بجلی اور پٹرول کے مہنگے ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اشیائے ضرورت کی ہر چیز خودبخود مہنگی ہو جائے گی ۔ عمران خان کو کسی اور کا احساس نہیں تو کم از کم اپنی سابقہ تقریروں کا ہی بھرم رکھ لیں، آئی ایم ایف کے حوالے سے ان کی ایک نہیں بلکہ ان گنت تقریریں موجود ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔صحیح اور حقیقی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی مالی خود مختاری چھین لی ہے ، بھاری شرائط پر قرضے دئیے جا رہے ہیں، معاملہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ یہ بھی آئی ایم ایف نے طے کرنا ہے کہ پٹرول ڈیلروں کی شرح منافع کیا ہو۔ سابقہ حکمرانوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلا ، اپنے اعلانات کے برعکس موجودہ حکومت بھی یہی کچھ کر رہی ہے بلکہ اپنے پیش رئوں کے مقابلے میں دوہاتھ آگے نظر آتی ہے، موجودہ حکومت نے رواں سال جولائی تا اکتوبر 3.8ارب ڈالر کے نئے قرضے لئے، مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ قرضوں سے سود کی رقم اتاری جائے گی اور مزید قرضوں کی راہ ہموار ہو گی ، یہ قوم کیلئے خوشخبری ہے یا عذاب کی اطلاع کہ ابھی نئی قرضوں کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں اور شوکت ترین پہلے مشیر خزانہ ہیں جو ہر روز قوم کو مزید قرض لینے اور بجلی و پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کی اطلاع دیتے آ رہے ہیں ، روپے کی بے قدر ی سے غیر ملکی قرضوں میں 16کھرب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے ، روپے کی بے قدری کا عمل تیزی سے جاری ہے نہ جانے یہ صورتحال کہاں سے کہاں پہنچے۔ ایک طرف مقروض پاکستان کی حالت یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا سود اتارنے کیلئے سخت شرائط پر بھاری قرضے لئے جا رہے ہیں اور غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریب پاکستانیوں پر مزید پٹرولیم بم گرائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں افغانستان کو 5ارب روپے کی امداد دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک افغانستان سے جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ دہشت گردی میں ملوث ہزاروں انسانوں کے قاتلوں کو رہا کیا جا سکتا ہے تو پھر معمولی جرائم میں ملوث پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا حق اُن سے زیادہ ہے، اس طرح کے حکومتی نامعقول فیصلوں سے دہشت گردی سے شہید ہونیوالے افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کی جا رہی ہے، حکومت شہداء کی قربانیوں کی تحسین نہیں کر سکتی تو کم از کم ان کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی سے گریز کرے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں سٹیٹ بینک کی خود مختاری بھی شامل ہے۔ سٹیٹ بینک نے حال ہی میں شرح سود میں اضافے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے حکومت کا 4سو ارب روپے کا خرچ مزید بڑھ گیا ہے جبکہ نجی شعبے کو بھی ایک سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے ، آئی ایم ایف ترقی پذیر ممالک کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کے لئے مسائل کھڑے کرتی آ رہی ہے پاکستان اس کا ہدف ہے ، حکومت کو اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ حکومت کی طرف سے مہنگی ایل این جی خریداری کا خمیازہ غریب بجلی صارفین کو بھگتنا پڑے گا کہ نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں 4.75روپے فی یونٹ اضافہ کرنے کی سمری بھیج دی ہے، کے الیکٹرک نے بھی بجلی مہنگی کرنے کی سمری بھیجی ۔ فرنس آئل ، ہائیڈل ،کوئلے ، گیس اور درآمدی ایل این جی اور جوہری ایندھن سے پیدا کی گئی بجلی کے اخراجات بڑھنے سے نرخوں میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے، اس تمام اضافے کا بوجھ غریب صارفین پر پڑے گا اور ملکی صنعتی اور زرعی پیداوار میں کمی کا بھی امکان ہے جس سے متاثر ہمیشہ غریب اور سفید پوش طبقہ ہی ہوا ہے، یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے سمجھ سے بالا تر ہے کہ عمران خان کے خلاف سازش ہے یا حکومت کی نا اہلی؟ بہرحال جو بھی ہے اس کا ادراک کرنا چاہئے کہ عمران خان نے ووٹ لیتے وقت غربت ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا ،غریب ختم کرنے کانہیں۔