بارہا سنتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی خود مختاری کے اصولوں پر وضح نہیں کی جاتی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور معاشی پالیسی کی سمت کا تعین آج تک نہیں ہوسکا۔ مثال کے طور پر جب 9/11 کے بعد ہم نے امریکی کیمپ میں مکمل شمولیت کا ارادہ باندھا تو پاکستان میں مغربی افکار ہی کو نہیں بلکہ کلچر کو اپنانے کا رواج شروع کیا گیا۔ ہم نے کالج میں خوب دھوم دھام سے ہیلوین ، ویلنٹائن ڈے، کرسمس، دیوالی، ہولی وغیرہ منائیں۔ بسنت جو کہ پتنگ بازی کا انتہائی شاندار تہوار تھا اسے شراب و شباب کے حوالے کر دیا۔ مشرف دور میں چونکہ این جی اوز کو کھلی چھوٹ تھی اور کارپوریٹ کلچر کو فروغ دیا جارہا تھا اس لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں اہم مقامات پر واقع اونچے اور وسیع گھروں کی چھتیں بسنت منانے کے لیے کرائے پر لیتیں۔ چونکہ ایک بہت بڑا گروہ کئی برسوں سے گانے بجانے کی ممانعت پر کمر بستہ تھا اس لیے بہت سے علما جو اس ممانعت میں گنجائش نکالنے کی ہمت رکھتے تھے میدان میں اتارے گئے۔ ویلنٹائن کی اہمیت اور افادیت پر فتوے دلوائے گئے۔اس مشق کا عمومی مقصد اپنے مغربی اتحادیوں کو یہ باور کروانا تھا کہ پاکستان ایک ماڈرن ملک ہے۔ چونکہ پاکستان پر جہاد کے نام پر دہشت گردی پھیلانے کا الزام تھا اس لیے ‘‘Modern Enligtenment’’ جیسے نظریے متعارف کروا ئے گئے۔ اسی دوران صوفی اسلام کے فروغ کے لیے بھی بھاگ دوڑ شروع کی گئی۔ ان سب کا مقصد دنیا کو پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنا تھا۔ اب ہم آج کی صورت حال دیکھتے ہیں۔ چونکہ ہمارے اتحادی بدل گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان ترکی، سعودی عریبیہ، ایران، افغانستان، جیسے مسلم ممالک کے قریب ہے اس لیے ہماری خارجہ پالیسی کے خدو خال بھی بدل گئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم پوری دنیا میں اسلام کے داعی بن کر ابھرے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سب رسول کریم ﷺ کی پیروی کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت جس کے وہ سربراہ ہیں خود اس بیانیے پر عمل پیرا ہے؟ جس ملک میں انصاف مہیا کرنے والے ادارے لا قانونیت پھیلانے میں پیش پیش ہوں( جسے وکلا گردی کا نام دیا جاتا ہے)، جہاں اشرافیہ عدالتوں کے ناک کی نکیل بن جائے، جہاں ایوانوں میں بیٹھے لوگ ملک کی معیشت سے زیادہ اپنی ذاتی معاشی حیثیت کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہوں وہاں نبیﷺ کی پیروی کا دعویٰ کیونکر مانا جائے۔ مدینہ ہجرت سے پہلے، مکہ کے اکابرین کو جب یہ یقین ہو گیا تھا کہ آپﷺ اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ کفار آپ کو نبی اور اسلام کو دین مان لیں گے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مکہ میں رائج معاشی اور معاشرتی روایات کو یکسر ختم کرنے کی ضد چھوڑ دی جائے اور سمجھوتے کی کوئی راہ نکالی جائے۔ دوسرے معنوں میں کچھ ہم آپ کی مان لیتے ہیں اور کچھ آپ ہماری مان لیں کا مطالبہ رکھا گیا۔ ایک طرف بنی ﷺکی تعلیمات کی پیروی کی بات اور دوسری طرف آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عمل کرنے کے لیے حکام کی پھرتیاں جس میں سوائے عوام کی بدحالی اور ملک کی معاشی تباہی کے کچھ بھی نہیں رکھا۔ کچھ دن ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے حکم صادر کیا کہ سکولوں میں درود شریف روزانہ پڑھایا جائے،اچھی بات ۔ لیکن کیا وزیر اعلیٰ نے یہ بات یقینی بنائی ہے کہ آئین کی شق 25A پر مکمل طور پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔ جس کے تحت ریاست پابند ہے کہ وہ ہر بچے کو اٹھارہ سال کی عمر تک مفت تعلیم مہیا کرے۔ آئین پاکستان حکمرانوں کے پاس اس ملک کے بیس کروڑ عوام کی امانت ہے جسے نافذ کرنا ان پر فرض ہے کیونکہ اس کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔ قرارداد مقاصد کے بعد تو ہمارا آئین بھی بقول شخصے اسلام کے خدو خال کا ترجمان ہے۔ میں اپنے ارد گرد کئی بچوں کو جانتی ہوں جوسکول نہیں جاتے کیونکہ انکے پاس یا تو وسائل نہیں یا سکول میں اساتذہ ان پر تشدد کرتے ہیں، یا ان کے والدین انہیں پڑھانا نہیں چاہتے یا سکول گھروں سے دور ہیں۔ اسی طرح کئی استاد ہیں جنہیں تنخواہیں وقت پر نہیں ملتیں یا ان کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کی کوئی سنجیدہ مشق نہیں کی گئی۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہنر مند افراد کی کمی ہے۔ کامیاب نوجوان پروگرام میں اگر قرضوں کی سہولت کے ساتھ skill development یعنی مہارت پیدا کرنے پر بھی غور کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ آنے والا منی بجٹ ملک کی تاریخ کا سخت ترین منی بجٹ ہو گا۔معاشی ماہرین بدلنے سے تو ملک درست نہیں ہوگا۔ ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کی بربادی کے منصوبے بنانے اور انہیں نافذ کرنے پر مامور ہیں۔ ان لوگوں کی نشاندہی اور ان کے بنائے ہوئے نظام کو چھوڑنا ہوگا۔ اگر ایک دوا بار بار استعمال کرنے سے افاقہ نہیں دے رہی، اس سے بیماری میں اضافہ ہو رہا ہے تو اسے چھوڑنے یا بدلنے میں کیا چیز مانع ہے۔ سوائے اسکے کہ انسان فیصلہ ہی کر لے کہ اس نے خود کشی کرنی ہے۔ ایک طرف بات کی جاتی ہے کہ مغربی ممالک کے کلچر نے پاکستان کے خاندانی نظام کو درہم برہمکردیا ہے دوسری طرف آپ کے اپنے بچے اسی نظام میں پڑھ لکھ کر عمدہ اور باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ پورا بھارت مغربی دنیا سے پڑھ کر، ان سے متاثر ہو کر ان کے طرز کی زندگی گزارکر آج بین الاقوامی اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہے۔ ایک ہم ہیں جنہیں اگر برائی کا کیڑا پاس سے بھی گزر جائے تو فورا لگ جاتا ہے۔ اگر مغرب کا ایجنڈہ ہمیں برباد کرنا ہے تو ہم یہ کہہ کر سبکدوش نہیں ہو سکتے کہ بیرونی طاقتیں ہمیں برباد کر رہی ہیں۔ اندرونی معاونت کے بغیر کوئی بیرونی طاقت کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ آئی ایم ایف کے سہولت کار اس ملک کے دشمن ہیں اور یہ ہی وہ ظلم کا نظام ہے جو کفر کے نظام سے ابتر ہے۔ اسے بدلیے نظام مصطفیٰ خود ہی نافذ ہو جائے گا جیسے کئی مغربی ممالک میں نافذ ہے۔