بزرگ صحافی‘ دانشور اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن آئی اے رحمان بارہ اپریل کو وفات پاگئے۔ مجھے دو برس اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور تیس سال تک اُن سے یاد اَللہ رہی۔وہ سیکولر‘ لبرل آدمی تھے۔ کسی قدر سوشلسٹ نظریات سے بھی متاثر تھے۔ پارلیمانی جمہوریت سے انکی وابستگی پختہ اور غیر متزلزل تھی۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی کے بڑے علمبردار اور سرگرم کارکن تھے۔لبرل‘ سیکولرمکتب فکر کے لوگ ان کے نظریات بہت پسند کرتے تھے‘ انہیں اپنا رہنما اور گائیڈ سمجھتے تھے۔ رحمان صاحب صحافت میں پیشہ وارانہ اعتبار سے کامل تھے۔جس آسانی‘ سرعت سے خوبصورت انگلش زبان میں وہ حالاتِ حاضرہ اور مختلف موضوعات پر لمبا چوڑامضمون‘ تبصرہ لکھ دیا کرتے تھے وہ اُن ہی کا خاصا تھا۔اسکا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب میںنے 1990میں انگریزی ہفت روزہ وِیوپوائنٹ میں انکے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔بحیثیت صحافی یہ میری پہلی باقاعدہ ملازمت تھی۔ منگل کو دوپہر تک ہفت روزہ کی کاپی مکمل ہو کر پریس میںچھپنے کے لیے جاتی تھی۔ وہ صبح نو بجے آتے۔ ایک کرسی میز پرچند اخباری کاغذ لیکر ان پر بال پوائنٹ سے قومی سیاست پر اپنا آرٹیکل لکھنا شروع کرتے۔ ایک مُٹھی میں سگریٹ دَباکراس کے کش کھینچتے جاتے۔ دوسرے ہاتھ سے انکا قلم چلتا رہتا۔گاہے گاہے چائے کی چسکی لیتے رہتے۔ روانی سے لکھتے تھے ۔ بہت کم ہوتا تھا کہ الفاظ کاٹ کر دوبارہ لکھتے۔ٹائیپسٹ آتا رہتا اور یہ کاغذ(جنہیں ہم’ سلپ‘ کہا کرتے تھے) ساتھ ساتھ کمپیوٹر روم میں ٹائپ کرنے کولیجاتا رہتا۔کم و بیش ایک گھنٹے میں چار پانچ صفحے مکمل ہوجاتے تو اسکا پرنٹ انہیںدے دیا جاتا۔ وہ اپنا لکھا ہُوا معمولی سا ایڈٹ کرتے ۔ پھر یہ مضمون ظفر اقبال مرزا یا طاہر مرزا کے پاس خواندگی کے لئے چلاجاتا۔ اصل میں رحمان صاحب صبح ہی صبح سارے اخبارپڑھ لیا کرتے تھے۔ وہ ان لوگوں میںسے تھے جو صبح اٹھ کر اخبار آنے کا انتظار کیا کرتے ہیں۔الیکٹرانک اور ڈیجیٹل دور میں اس قسم کے لوگ اب کم ہی رہ گئے ہیں۔ ساری تازہ خبریں اُن کے دماغ میں ہوتی تھیں۔ بولتے کم تھے۔ سوچتے زیادہ تھے۔ ذہن میں جملے بناتے رہتے تھے۔ ا اس لئے جب لکھنا ہوتا تھا تو بہت سہولت سے لکھ لیتے تھے۔انکا گھر سیاست‘ ادب‘ تاریخ کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر موضوع پر پس منظر کا مواد‘ تاریخی حوالے انکی یادداشت میں محفوظ تھے۔ قاموسی شخصیت تھی۔ صحافت کے شروع میں وہ فلموں پر تبصرے لکھا کرتے تھے۔ اُردو اشعار اَز بر تھے۔میں نے انہیں ڈاکٹر مبشر حسن کے ہاں اکثر علامہ اقبال کے اشعار کے حوالے دیتے سنا۔ چونکہ ساری عمر ایک مخصوص نظریہ سے وابستہ رہے اس لئے سوچ میں اُلجھن نہیں تھی۔ ایک واضح نقطۂ نظر تھا۔ کوئی اختلاف کرے یا اتفاق۔ اِسکی اُنہیں پرواہ نہیں تھی۔ انڈیا کے بارے میں نرم گوشہ تھا۔ اس پر تنقید نہیں کرتے تھے۔ میں نے انہیں سب سے خوش ان مواقع پر دیکھا جب انڈیا اور پاکستان کے وفود کے اجلاس ہوتے تھے۔ وہ دل کی گہرائی سے چاہتے تھے کہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات دوستی پر مبنی ہوں۔ کبھی اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ آئی اے رحمان سر تا پا دانشور تھے۔ دانشوری اُنکا اوڑھنا بچھونا تھی۔ جیسے بڑے شاعر ہر وقت ایک کیفیت اور دُھن میں رہتے ہیں رحمان صاحب بحیثیت صحافی اور دانشور اپنے موضوعات پر سوچ و بچار میں مگن رہتے تھے۔ لیکن وہ درون بیں نہیں تھے۔ باہر کی دنیامیں اچھی خاصی دلچسپی لیتے تھے۔ دوستوں کی ہر غمی‘ خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ میرے والدکا انتقال ہوا تو اپنے بیٹے اشعر رحمان کے ساتھ لاہور کے اندرون شہر میں واقع میرے گھر پر پتہ پوچھتے پوچھتے افسوس کرنے کیلیے پہنچ گئے ۔ میرا پہلا بچہ ہوا تو اسے دیکھنے ہسپتال آگئے۔ لوگوں سے میل جول بہت تھا۔دلّی والے تھے۔ نہاری پسند تھی۔ لوہاری گیٹ کے مشہور حاجی نہاری والے کے ہاں اکثر جایا کرتے تھے۔ ان میںتوانائی بہت تھی۔ ابھی اخبا ر کے لئے کام کیا اور ابھی کسی سیمینار میںخطاب کے لیے پہنچ گئے۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ صرف صحافی نہیں تھے بلکہ اپنے لبرل‘ سیکولر خیالات کی ترویج کے سرگرم کارکن بھی تھے۔ٹِک کر نہیں بیٹھتے تھے۔ چند سال پہلے تک ہر وقت ایک شہر سے دوسرے شہر کے دورے پر رہتے تھے۔ لاہور‘ کراچی ‘ اسلام آباد ایک کیے رکھتے تھے۔ ہر جگہ انکے مکتب فکر کو لوگ انہیں چاہتے تھے۔ مختلف تقریبات میں خطاب کے لیے ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھیجتے رہتے تھے۔ کئی انگریزی اخبار اور رسالے بھی ان سے مضامین کی فرمائش کرتے رہتے جو ہمیشہ پوری کردیاکرتے ۔لکھائی پڑھائی کا اتنا ڈھیر سارا کام کرنا اورساتھ ہی ساتھ ہر وقت سفر میں رہنا ‘ تقریبات میں شرکت کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ مجھے اُن پر رشک آتا تھا۔ اَن تھک تھے۔نوّے برس سے زیادہ عمر میں انتقال کیا ۔سخت جان تھے۔ مرنے سے چار دن پہلے بھی ڈان اخبار کیلیے ہفتہ وار کالم لکھا حالانکہ تین ہفتوں سے بہت کمزور ہوگئے تھے اور بستر سے لگ گئے تھے۔ مجھے رحمان صاحب کی جو بات سب سے زیادہ پسند تھی کہ وہ بحیثیت انسان بہت شاندارتھے۔ ایسے شفیق ‘ با مروّت اوروضع دار لوگ میں نے کم دیکھے ہیں۔ وہ لبرل‘ سیکولر حلقہ میںایک بڑا مقام رکھتے تھے۔ ان کو اُستاد کا درجہ حاصل تھا۔لیکن طبیعت میں بلا کی عاجزی تھی ‘ انکسار تھا۔وہ اپنے جونئیرز اور ساتھ کام کرنے والوں کا احترام کرتے تھے ‘ انکے ساتھ نرمی‘ شفقت سے پیش آتے تھے۔لوگوں کی غلطیوں پر رعائت سے کام لیتے تھے۔ میں نے انہیں کبھی کسی کو ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کام نہ کرنے ‘ دیر سے کرنے یا غلط کرنے پرانہیں کسی پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ اگر کسی کی کوئی بات ناپسند ہوتی تو منہ ہلکا سا دوسری طرف کرلیتے تھے۔ یا کبھی کبھی دَبے الفاظ‘ اشارے کنائے میںاپنی ناپسند کا اظہار کردیتے۔کوئی بہت ہی ناپسند ہوتا تو اُس پر خفیف سا طنز کردیتے۔ رحمان صاحب مذہبی آدمی نہیں تھے۔ لیکن عادات رُوحانی بزرگوں ایسی تھیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ تھے۔ معمولی سے کیری ڈبہ میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے۔جو لوگ اُن پر تنقید کرتے تھے وہ اسکا جواب نہیں دیتے تھے۔ نظر انداز کردیتے تھے۔ ایک طرح سے ملامتی صوفیا کی راہ پر چلتے رہے۔ میں نے انہیں کبھی کسی کی غیبت کرتے نہیں سنا۔ کسی کو نقصان پہنچاتے نہیں دیکھا۔ کسی سے نہ کوئی شکایت تھی نہ کوئی گلہ۔گو انکے طبقۂ فکر کے لوگ پاکستان میں اقلیت میں ہیں لیکن وہ نااُمید نظر نہیں آئے۔روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جب لوگ لاکھوں روپے ماہانہ معاوضہ پر این جی اوز میں کام کررہے تھے تو وہ بہت معمولی تنخواہ پر انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ تھے۔ اُنکی کمٹ منٹ اپنے نظریات سے تھی۔ وہ ایک لبرل‘ سیکولر درویش تھے۔ مجھ سے پہلے والی نسل میں ایسے لوگ تھے جن کے نزدیک اُنکی دولت اور سرمایہ انکے نظریات اور دانشورانہ زندگی تھی۔ بے لوث‘ کسی لالچ کے بغیر ‘ صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر اپنے نظریات پر مستحکم رہتے ہوئے اپنا کام کرتے رہنا مشکل بات ہے۔ پاکستان کے ہر مکتب فکر میںایسے گنے چُنے لوگ ہیں۔ آئی اے رحمان اُن چند لوگوں میں سے ایک تھے۔