کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہم اب بھی بہت سی اشیا درآمد کرتے ہیں۔ 2020-21 میں گندم کی پیداروار 25 ملین ٹن تھی۔ پاکستان نے 3 ملین ٹن گندم درآمد کی تا کہ محفوظ ذخائر میں کمی نہ ہو اور کورونا جیسی وبا میں خوراک کی کمی نہ ہو۔ -22 2021 کے لئے 27 ملین ٹن کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور اس طرح 8 فی صد پیداوار میں اضافہ کی امید ہے۔ زمینی حقائق اسکے الٹ ہیں۔گندم کا قابل کاشت رقبہ کم ہو رہا ہے جس کی وجہ ایک تو مکئی کی فصل کے ریٹ میں اضافہ ہے اور دوسرے مکئی کی پیداوار زیادہ ہے مکئی کی دو فصل کی پیداوار 200 من کے قریب ہے اور گندم زیادہ سے زیادہ 50 من ہو سکتی ہے۔ گندم کی فصل پر ہونے والے خراجات بشمول ٹھیکہ 60 سے 65 ہزار بنتے ہیں اور گندم کی پیداوار سے آمدن 80 ہزار کے قریب ہے۔ ایک کسان جو پانچ ایکڑ کا زمیندارہ ہے گندم سے 80 ہزار تا ایک لاکھ کماتا ہے جس میں اس کی مزدوری شامل نہیں ہے۔ چارہ کی فصل جس پر خرچہ کم ہے وہ بھی ایک لاکھ بیس ہزار کا ایکڑ ہے۔اگر وہ خود دودھ والے جانور رکھتا ہے تو اس کی ماہانہ آمدنی چھ ماہ کی گندم سے زائد ہو سکتی ہے۔اس بات کا واویلہ ہوتا ہے روٹی اتنے کی ہو گئی کسان 15 تا 20 ہزار ماہانہ میں گزارہ کیسے کرے گا اس بات کا خیال کسی کو نہیں ہے۔اس دفعہ ڈی اے پی کی قیمت 8600 سے بڑھ چکی ہے۔ اس وقت مار کیٹ سے غائب ہے اور 10 ہزار کے لگ بھگ بلیک میں مل رہی ہے۔ اب دو بوری ڈی اے پی، ایک پوٹاش اور دو یوریا کی قیمت تیس ہزار کے قریب ہے اور زمین کی تیاری دس ہزار اور ٹھیکہ 30 ہزار چھ ماہ کا ۔ابھی اس میں ہارویسٹنگ کے خراجات شامل نہیں ہیں ورنہ کسان کو صرف توڑی بچتی ہے جو دس سے 15 ہزار کی ہے۔ سندھ کی حکومت نے امدادی قیمت 2200 روپے فی من مقرر کی ہے اور وفاقی حکومت نے 1950 روپے فی من مقرر کی ہے۔ کسان کو گندم خرچہ میں 2000 روپے فی من پڑتی ہے اگر پانی اور سپرے کے اخراجات کو شامل کیا جائے۔جب کسان کو کھاد نہیں ملے گی پیداوار پر اثر پڑے گا۔ایک زیر کاشت رقبہ کم ہوگا پھر بھی پیداوار کم ہو گئی تو آنے والے سال میں گندم کی قیمت 2500 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ سرکاری قیمت اور مارکیٹ کی قیمت میں اتنا فرق ہوگا تو بحران تو لازمی ہے۔ گندم کے بعد دوسری سب سے اہم غذائی فصل آلو کی ہے آلو سارا سال 100 روپے سے کم نہیں ہوا،اب کھاد کی عدم دستیابی کااثر آلو کی فصل پر بھی ہو گا جب آلو مہنگا ہوگا ساری سبزیاں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس طرح مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والہ طوفان ہمارا منتظر ہے۔ دودھ اور گوشت کی قیمت آئے دن بڑھ رہی ہے انڈا ساری گرمیاں 15 روپے سے کم نہیں ہوا۔ کوکنگ آئل کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ خوردنی تیل کی درامد میں 5 فی صد اضافہ ہوا ہے تین اعشاریہ پانچ سے تین اعشاریہ 7 میٹرک ٹن تک پہنچ گئی ہے ۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی کھپت ساری دنیا سے زائد ہے فی کس کے حساب سے۔پاکستان سالانہ فی کس 24 لیٹر سالانہ کے حساب سے خوردنی تیل استعمال کرتا ہے ۔ گزشتہ سہ ماہی میں خوردنی تیل کی درآمد 92 کروڑ تک پہچ گئی جو پچھلے سال جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی میں 54 کروڑ ڈالر تھی۔ پہلے ہر سال کوکنگ آئل کی قیمت میں 10 فی صد سالانہ اضافہ ہوتا تھا جو اس سال 30 فی صد سے زائد متوقع ہے۔ ہمارے میڈیا نے ہمیں وڈیو ، آڈیوپیچھے لگایا ہوا ہے اور پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود، گندم، چینی، اور خوردنی تیل کی درآمد میں مصروف ہے۔ پام آئل اور سویا بین آئل ہماری دو بڑی درآمدات ہیں۔ زیتون کے تیل کی پیداور میں شاید ہم دو تین سال تک خود کفیل ہو جائیں۔ ان فصلوں کی پیداور میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا کلچر بدلنا ہوگا۔ اگر ہم تھوڑی سی کوشش کریں اور خوردنی تیل کی کھپت 24 لیٹر فی کس سے 12 لیٹر فی کس سالانہ پے لا سکتے ہیں۔ آئل کا زیادہ استعمال ایک تو ملکی زرمبادلہ کے لئے مسئلہ ہے اور دوسرے صحت کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ جہاں تک دودھ اور گوشت میں اضافے کا تعلق ہے۔ہمارا کسان دنیا سے بہت پیچھے ہے ہم اپنے نزدیکی ہمسائیوں سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ سب سے پہلے جانور کی اچھی نسل کی تیاری دودھ اور گوشت کے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔دوسرا اچھی قسم کے چارے کی پیداوار۔ اب جبکہ ایسے چارہ جات آچکے ہیں جو ایک کٹائی میں 2000 من تک پیداوار دے سکتے ہیں۔ ہمارے کسان 400 من فی ایکڑ والے چارے پر لگے ہوئے ہیں۔کسان کو ایک بڑا مسئلہ اس کے مویشیوں کے لئے سردیوں میں بہترین پناہ گاہ چاہئے۔ کسان کے پاس پیسے نہیں ہوتے کہ وہ انفراسڑکچر بنا سکے۔حکومت کو بلا سود قرضہ دینا چاہئے تاکہ وہ اپنے مویشیوں کے بہترین پناہ گاہ بنا سکے اور ان کو بیماری سے بچا سکے۔ بکریوں میں بیماری سردی کے موسم میں آتی ہے جس کی وجہ ان کے لئے بہترین پناہ گاہ کا نہ ہونا ہے۔ ایک اور سب سے بنیادی مسئلہ لا اینڈ آڈر کی صورتحال کا ہے۔ اگر ہم مویشی کی چوری کے کلچر کو ختم کر دیں ہم دس فی صد وسائل کے ساتھ بہترین نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ امن و عامہ کا مسئلہ صرف زراعت میں نہیں زندگی کے ہر شعبہ میں ہے۔ بہت ساری لوکیشن پر کاروبار نہ ہونے وجہ صرف امن و عامہ کا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے نہ ہمیں تھنک ٹھینک کی ضرورت ہے نہ غیر ملکی امداد کی ۔ پولیس اور عدلیہ کے نظام کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ جب ہر گھر میں خوشحالی ہوگی وہ دال روٹی کی آزمائش سے نکلے گا تو ملک ترقی کی شاہراہ پر ہو گا۔