ایک بات ہمیں کافی دیر میں سمجھ آئی ہے کہ زندگی میں جو فیصلہ بھی ہم نے کافی سوچ بچار اور مکمل غوروخوض سے کیا ہے اُس پہ ہم ضرور پچھتائے ہیں ۔ اور ہماری زندگی میں ایسے فیصلوں کی تعداد ، خیر سے ، ’’ نمک میں آٹے‘‘ کے برابر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی اور طرح سے فیصلہ کرنے کاا نجام کوئی زیادہ مختلف ہوتا ہے ۔ عمرِ عزیز میں ہر فیصلے کے بعد ہی یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ آئندہ اس طرح فیصلہ نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن پوری طرح غوروفکر کرنے کے بعد جو فیصلہ کیا جائے اس کی ناکامی پہ پچھتاوے کی شدت قدرے زیادہ ہوتی ہے ۔ اردو میں ایم فل کرنا بھی ہمارا ایسا ہی ایک فیصلہ تھا۔ بہت سوچا سمجھا ،نپا تُلا ! یعنی کئی دن کے غوروخوض اور سوچ بچار کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا ۔ بلکہ اس میں توہم نے ان دوستوں سے مشاورت بھی کی جو ہمیں نسبتاً پڑھے لکھے لگتے ہیں ۔ مکمل چھان بین اور پوچھ گچھ عمل میں لائی گئی ۔لیکن اس قدر تگ و دو اور ضروری و غیر ضروری جانچ پڑتال کے باوجود یہ فیصلہ بھی کوئی استثنائی صورت اختیار نہیں کر سکا ۔ داخلہ لیتے وقت ہمیں جو خدشات درپیش تھے اُس میں زیادہ اہم اپنی کم مائیگی کا احساس تھا ۔ ہمارا خیال تھا کہ اردو زبان و ادب میں ایم فِل کرنا ہو تو اس مقصد کے لیے جس درجہ مطالعہ اور علمی و ادبی دلچسپی کا ہونا ضروری ہے ہم شاید اُس معیار پہ پورے نہیں اترتے ۔ لیکن داخلے کے بعد پہلے ہی دن جب ہم نے کلاس جوائن کی تو اس حوالے سے ہمیں اس وقت کافی حوصلہ ملا جب ہمارے کلاس فیلوز سے ہماری ملاقات ہوئی ۔ سرسری تعارف کے دوران پہلے تو یہ لگا کہ ہم شاید غلطی سے کسی اور کلاس میں آگئے ہیں ۔ یعنی کافی دیر ہمیں بالکل عام سی اورایسی گفتگو سننے کو ملی جس کا اردو ادب اور سخن فہمی سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ ہمیں اندازہ ہورہا تھا کہ زیادہ تر کلاس کا تعلق اپنی ’’ کلاس ‘‘ سے ہی ہے۔تھوڑا مزید کھُلے تو پتہ چلا کافی احباب ایسے تھے جن کا ادب شناسی اور سُخن فہمی سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ اردو ادب کے حوالے سے ہم خود بھی اپنے آپ کو کافی حد تک پیدل تصور کرتے ہیں ۔ لیکن ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے کئی کلاس فیلوز تو اس میدان میں بالکل گھٹنوں کے بل چل رہے تھے۔چنانچہ ہمارے خوف خدشات کسی حد تک چھٹ گئے ۔ ہم نے سوچا کہ اگر یہ لوگ ایم فِل پاس کر گئے تو پھر شاید میرٹ پہ ہمیں بھی فیل کرنا ممکن نہ ہو ۔ ویسے یہاں عجزو انکساری کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم یہ اعتراف کریں کہ تمام کلاس فیلوز علمی وادبی لحاظ سے ہم سے بہت بلند سطح پر فائز ہیں لیکن یہ شاید حقیقت کے برعکس ہوگا ۔یہاں حقیقت پسندی عاجزی و انکساری پہ حاوی آگئی ہے ۔ بہرحال کلاس کے متعلق ہم جو تصور لے کر آئے تھے وہ قدرے معدوم ہو رہا تھا ۔ البتہ کئی دیگر فوائد کے ساتھ ایم فل کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہماری کئی غلط فہمیاں دورہو گئیں ۔ مثلاً ہمارا خیال تھا کہ اردو میں ایم فل کرنا ہو تو اس کے لیے طالبعلم میں ادبی ذوق کا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن ہمیں جلد ہی احسا س ہوگیا کہ یہ ایک غلط فہمی تھی ۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ادبی ذوق شوق ہونا بڑی اچھی بات ہے لیکن یہاں اس کی ایسی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی ۔ بلکہ ہمیں کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ عملی لحاظ سے ایسا بے جا ذوق کسی قدر اضافی ہوتا ہے اور مقصد کے حصول کے لیے یہاں اس کا اظہار مددگا ر ثابت ہونے کی بجائے کسی حد تک رکاوٹ کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ ہمارے ایک بہت ہی پیارے کلا س فیلو جن کی ادب میںدلچسپی نے شروع میں ہمیں کافی متاثر کیا ایک دن فرمانے لگے کہ عصمت چغتائی بھی کمال کا افسانہ نگار تھا ۔ میں نے چونک کر عرض کیا ، ’’ حضور ! جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ خاتون تھیں ۔‘‘ اس پر موصوف اڑ گئے ۔ خیر کافی بحث رہی ۔جس دوران اُن کے حد درجہ تیقّن کی وجہ سے ایک دو باربڑے حوصلہ شکن مقامات بھی آئے اور مجھے لگا کہ موصوف کہیں ٹھیک ہی نہ کہہ رہے ہوں ۔ لیکن پھر اپنی یادداشت پہ زور ڈالا ۔ موصوفہ کے کئی افسانے ذہن میں کوندے ۔ خصوصاً ’’لحاف ‘‘ مدد کو آیا۔ یار لوگوں کا خیال ہے کہ ’’ لحاف ‘‘ اگر کوئی مرد تخلیق کرتا تواس کو اس قدر پزیرائی کہاں ملتی ۔ ان احباب کا خیال ہے کہ اس افسانے کی بے پناہ مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک خاتون کی تخلیق تھی ۔ چنانچہ آخر پہ میں نے اپنے اس فاضل کلاس فیلو سے عرض کیا، ’’ حضور ! یہ دو تین معلومات ہی میرے پاس ہیں جن کے درست ہونے کا مجھے کافی یقین ہے اور یہی میرا ادبی سرمایہ ہیں مجھے ان سے تو محروم نہ کریں ۔ ‘‘ ۔ بہرحال میں نے بحث میں بظاہر اپنی جیت پہ فوراً معذرت پیش کی۔ جسے کمال شفقت سے انہوں نے قبول فرما لیا ۔ ہمارے باکمال اساتذہ کرام نے کلاس کو ’’ ڈیل ‘‘ کرتے ہوئے جس لاجواب تحمّل اور حوصلے کا مظاہر ہ کیا اس کی داددینی پڑتی ہے۔بس ایک آدھ بار ہمارے ایک استاد محترم نے بڑے لطیف پیرائے میں ہمیں اس بات کا احساس دلایا تھا کہ فی زمانہ ہمارے ہاں ادبی ذوق کس قدر انحطاط پزیر ہے اس کا اندازہ ایم اے ، ایم فِل اردو کے طلباء سے ایک ملاقات میں ہو جاتا ہے ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ کہتے ہوئے اُن کا اشارہ کن عالم و فاضل ہستیوں کی طرف تھا ۔ ٭٭٭٭٭٭