جمہوریت کی علمبردار ،سوشلزم سے متاثر پیپلز پارٹی کی جب بنیاد رکھی گئی تو اس کے اساسی اصولوں میں سے ایک اصول تھا:طاقت کا سرچشمہ عوام ہیںجو بعد میں نعرہ بن گیا ۔اسی عوامی جمہوری پارٹی کے منشور میں لکھا ہے:اسلام ہمارا مذہب اور سوشلزم ہماری سیاست ہے۔اس نعرے پہ مذہبی جماعتیں بہت جزبز ہوئیں جو اسلام کے ایک ضابطہ حیات کے طور پہ مدعی تھیں اور ملک میں شریعت کے نفاذ کی علمبردار تھیں۔ اسی نعرے کی گونج میں بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلائی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوشلسٹ بھٹو ایک سیاسی مقدمے کی نذر ہوگئے اور ملک میں اسلام کے نام پہ گیارہ سالہ آمریت مسلط ہوگئی۔اس سارے المیے میں نہ نظام مصطفی نافذ ہوسکا نہ سوشلزم نے عوام کے مسائل حل کئے۔ جس کے علمبردار تین بار وفاق میں اور خدا جانے کب سے سندھ پہ مسلط ہیں۔بھٹو کو 73ء کے آئین کا بانی قرار دیا جاتا ہے جس میں قرارداد مقاصد کو اصولی حیثیت حاصل ہے جس کی رو سے مقننہ کوئی قانون شریعت الہیہ کی روح یا امر کے خلاف نہیں بنا سکتی۔ اسی یاددہانی کے لئے پارلیمنٹ کی عمارت کی پیشانی پہ بڑا بڑا کلمہ طیبہ کندہ ہے۔مجھے فی الوقت اس بحث میں نہیں پڑنا ہے کہ اسلام کے نام پہ قائم کئے گئے ملک میں تہتر کے آئین تک پہنچنے میں اتنا طویل عرصہ کیوں لگا اور اس کی خصوصی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ایک ڈاکٹر سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ڈاکٹری کے علاوہ کچھ اور مثلا سقہ گیری یا کاشت کاری وغیرہ کرے گا۔ ایک امیدغیر محل ہے۔اسلام کے نام پہ یا یہ آپ کو کچھ ناگوار محسوس ہوتا ہے تو کہہ لیجیے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اقلیت کے اکثریتی مطالبے پہ وجود میں آنے والا ملک قانون سازی کے لئے شریعت کے سوا کسی اور طرف کیسے دیکھ سکتا تھا، اسی گنجائش سے فائدہ اٹھا کر سوشلزم کی جگہ بنانے کی کوشش کی گئی جو سرے سے غیر جمہوری تھی۔اس کے باوجود بھٹو اور ان کی پارٹی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے کہ وہ واقعی غریبوں کے ہمدرد تھے اور سوشلزم سے اسی طور متاثرتھے کہ عوام کو اس کے حقوق حاصل ہوں تو پیپلز پارٹی سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ سے مراد علی شاہ تک تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔اگر سندھ کا ہاری کل کی طرح آج بھی فاقے نہ کرتا ہو تو سوشلزم زندہ باد۔میں نے ملیر کے گوٹھوں میں چیتھڑے لٹکائے انسانی ڈھانچوں سے پوچھاکہ وہ بھٹو کو کیوں ووٹ دیتے ہیں۔جواب ملا سائیں ایک بار گوٹھ آیا تھا۔ہمارے ساتھ زمین پہ بیٹھ کر روٹی مانی کھائی تھی بابا۔تب سے بھٹو زندہ ہے۔شرف انسانی اورغریب کی عزت نفس کی بحالی، کیا ایسے حربے ہیں جس پہ صدیوں انسان کو بھوکا پیاسا ذہنی غلام بنائے رکھا جائے؟ایک نکتہ یاد رکھنا ہوگا۔ ریاستیں چاہے قومیت کے نام پہ وجود میں آئیں یا مذہب کے نام پہ۔قائم صرف فلاح کے نام پہ رہتی ہیں۔اسی لئے سیدنا علی مرتضیؓ نے فرمایا۔کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے، ظلم کی ہرگز نہیں۔دیکھ لیجئے کفر کی حکومتیں قائم ہیں۔اس وقت تک ، جب تک سرمایہ دارانہ نظام کی کاسہ لیس کفریہ حکومتیں اس نظام کے پنجوں سے عوام کو کسی نہ کسی حد تک محفوظ رکھ کر ریلیف دیتی رہیں گی۔جس دن یہ ریلیف ختم ہوا، اس دن یہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیں گی۔پاکستان اسلام کے نام پہ وجود میں آیا، یہ اس کی نظریاتی اساس ہے۔اس کا دوسرا مقصد ایک اسلامی فلاحی مملکت کا قیام تھا جو متحدہ ہندوستان میں کچلی ہوئی اقلیتوں کے تلخ تجربے کی تلافی کرسکے اور دنیا میں ایک رول ماڈل بن سکے۔پاکستان کی نظریاتی اساس کبھی تبدیل نہ ہوگی۔اسے تبدیل کرنے کی خواہش مند ایک پارٹی آج سندھ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تو دوسری ایم کیو ایم اپنے ٹوٹے ٹکڑے سمیٹ نہیں پارہی۔نظریہ قائم رہے گا،فلاح کے بغیر مملکت خاکم بدہن قائم نہیں رہے گی۔سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار نظریہ نہیں تھا نہ ہی دریدہ دہن اندرا گاندھی کی ہرزہ سرائی کے مطابق یہ بحر ہند میں غرق ہوا تھا۔ اس کا ذمہ دار وہ رویہ تھا جو عوام کے اصل حقوق سے مسلسل صرف نظر کرتے ہوئے ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہنے پہ بضد تھا۔نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ اگر سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار نظریہ پاکستان ہوتا تو دونوں طرف کے بنگال ایک ہوتے اور ڈاکٹر لال خان کو یہ شکوہ نہ کرنا پڑتا کہ پاکستان سے علیحدگی کی صورت میں کچلے ہوئے طبقات کو جو موقع میسر آیا تھا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری طرف کے بنگالیوں کو بھی بنگلہ دیش کی آزادی میں شامل ہوجانا چاہئے تھا۔ آج جب قومی خزانے کی لوٹ مار کی جوابدہی کے لئے پیپلز پارٹی زیر عتاب آئی اور گورنر راج کا غلغہ اٹھا تو کُڑ کُڑ کہیں اور انڈے کہیں دینے والی ساری مرغیاں اٹھارویں ترمیم کی چھتری تلے جمع ہوگئیں جس پہ بحث نہ ہونے کا اعتراف رضا ربانی نے بھی کیا ۔ کسے وہ دن یاد نہ ہوگا جب سابق چئیرمین سینیٹ جناب رضا ربانی آئین کی اکیسویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری کے موقع پہ آبدیدہ ہوگئے تھے اور کہا تھا کہ وہ زندگی میں کبھی اتنے شرمندہ نہیں ہوئے۔ دل پہ پتھر رکھ کر فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری کی نوبت کیوں آئی تھی۔ محض اس لئے کہ تیس سال سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت کرنے والے دہشت گردی کو قابو میں کرنے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مکمل طور پہ ناکام رہے تھے۔اس کا مطلب ہے کہ جب سیاسی قیادت عوام کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام ہوگی اسے دل پہ پتھر رکھنا پڑے گا۔جب فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی جاسکتی ہے تو اٹھارویں ترمیم کی طرف بڑھتے ہاتھ کیوں اچھے نہیں لگ رہے۔ اس کے پیچھے سیاسی سے زیادہ نظریاتی مقاصد ہیں جو پاکستان کو ایک ایسی فیڈریشن میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جہاں صوبائیت کی عمل داری ہواور نظریہ پاکستان دفن ہوکر رہ جائے۔ اس سلسلے میں لکھنو پیکٹ اور علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کی مثال دینے والے یہ قطعی طور پہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت مسلمان اقلیت میں تھے اور اسلام ہی کی بنیاد پہ ان کے جداگانہ تشخص کا تحفظ ضروری تھا۔قیام پاکستان کے بعد صوبائی خود مختاری کی بحث صرف چند مخصوص شعبہ جات میں صوبوں کو تفویض کردہ اختیارات تک محدود ہونی چاہئے۔اگر وہ اس کے باوجود عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہتے ہیں تو پورا آئین عوامی حقوق کی شقوں سے بھرا پڑا ہے،اٹھارویں ترمیم تو اسکا محض ایک حصہ ہے۔ حقیقی فلاح کے بغیر آئین، جمہوریت اور صوبائی خودمختاری ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ایک عجیب مماثلت یہ بھی ہے کہ جب نوازشریف کی کرپشن پکڑی جاتی ہے تو چونکہ وہ وفاق میں حکمران تھے اس لئے وہ آئین کی بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کانعرہ لگانا شروع کر دیتے ہیں اور جب پیپلز پارٹی کی کرپشن پہ ہاتھ ڈالا جائے تو وہ سندھ کارڈ، صوبائی خودمختاری اور اٹھارویں ترمیم کا بین ڈالنے لگتی ہے۔آئین کے پردے میں چھپنے کا یہ تماشہ بھی خوب ہے۔