درد‘ غیرت‘ احساس‘ مروت کا عجب ہنگام امتحان ہے۔ پوری امت اب خدائی امتحان کی زد میں ہے۔ غفلت کے دبیز پردوں نے حقیقت فراموشی کی انتہا کر دی ہے۔مسلمان یکے بعد دیگرے مظلومیت کا مرقع بنتے جا رہے ہیں دنیا کی ہر جدید تہذیب نے یہ طے کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔کفار اور منکرین حق کے وہ منظم گروہ جن کو کسی نہ کسی انداز سے اقوام عالم پر بالادستی حاصل ہے وہ اپنی مضبوط قوت کو آزمانے کیلئے مسلمانوں ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔ مغرب اور مشرق کی تفریق نہیں ہے۔شعور و جذبات کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں شعور کا سہارا لے کر مسلمانوں پر آفت برپا کر دیں اور جب طے کر لیں کہ ان اقوام کے جنونی گروہ فساد برپا کر کے مسلمانوں پر کشت و خون کا دروازہ کھو لیں تو پھر ان کے باشعور ‘لوگ زبان کو دانتوں تلے دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کہاں کہاں مسلم کشی کا منظم سلسلہ جاری نہیں ہے۔ یہودی سب کو سکھاتا ہے۔کرائے کے دانشور ‘کرائے کے حکمران اور کرائے کے انقلابی سب ہی اس صہیونی سے مراد پاتے ہیں۔ رہی بات مشرکین ہند کی‘ تو وہ سب سے زیادہ اندھیرے کے پجاری ہیں۔ ان کے روہت ‘ پنڈت ‘ سب سیانے مسلم کشی کو سب سے اہم کام سمجھتے ہیںگاندھی سے لے کر مودی تک فریب کے پیکر بھارتی سیاستدان اور حکمران سب کے سب ایک ہی فکر سے بندھے ہوئے۔ کشمیر اور پھر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے غاصبانہ امتیازی قوانین کا اجرا و نفوذ اور پھر اسی قوم کے اعلیٰ عدالتی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کی تائید اور ان کو بزعم خویش منصفانہ جوازفراہم کرنا بدترین حیوانیت ہے جنگل کے قانون سے بھی بدتر قانون ہے۔جس ملک میں امن و امان قائم کرنے والے ادارے بلوائیوں کو اپنی نگرانی میں کھل کھیلنے دیں اور متبرک و مقدس مقامات کی توہین پر بلوائیوں کو اشارہ چشم سے مزید حوصلہ فراہم کریں‘ اسے آپ کیا کہیں گے۔خون کھول اٹھتا ہے جب مساجد کو شہید کرنے کے مناظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں اور غیرت ملی جوش مارتی ہے‘ مساجد کو مقتل گاہوں تبدیل کیا گیا۔ گھروں میں گھس کر بدمست ‘ انسانیت بیزار درندوںنے دختران اسلام کی عصمتوں کو نشانہ بنایا۔ فروری کا آخری ہفتہ یاران وفا کیش پر عرصہ قیامت بن کر ٹوٹا۔بھارتی حکمرانوں کے زیر حمایت ریاستی قوتیں‘ پولیس‘ نیم فوجی قوتیں مسلمانوں پر بجلی بن کرکوندیں‘ لبرل معاشرہ ‘سیکولر جمہوریت کا سب سے بڑا دھوکہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں دیکھا گیا۔ضدی ‘ ہٹ دھرم‘ ملیچھ ذہنیت کا بدترین پیکر مودی اور امیت شاہ ہیںاگر کسی کی زبان پر تنقید ہے تو اپنی سیاست کو بچانے اور آئندہ انتخابات میں بھولے مسلمانوں کو بہکانے کے لئے ہے۔ یہ سادہ لوح مجبور اپنے مستقبل سے مایوس انہیں ہندوچالبازوں کے مکروفریب کا شکار ہوں گے ان کے مذہبی لیڈر ایک قدیم تاریخ لئے ہوئے ہیں۔ٹکوں پر بکتے تھے‘ مسجدوں کے مقدس منبر پر منافقت کا گھنائونا پیکر گاندھی ان کی دعوت پر براجمان ہوتا تھا۔ ان کے خود تراشیدہ قومیت کے فلسفے پوری قوم کو گمراہی کے گڑھوں میں دھکیلنے کا سبب بنے تھے۔ ہزاروں رحمتیں ہوں قائد اعظم تیرے مرمریں مقبرے پر کہ خدا نے تجھے برصغیر ہی نہیں عالم اسلام کے مسلمانوں میں غیرت ملی بیدار کرنے کے لئے توفیق دی تھی۔ تیرے آزادی کے افکار میں آسمانی صداقت کی تائید شامل تھی۔ قائد اعظم نے بہکے اور بھٹکے بزعم خویش قائدین آزادی کو بہت درد مندی سے سمجھایا تھا کہ ہندوئوں کے مکر قومیت پر اعتبار مت کرو ۔ اعتبارمت کرو کہ ان کا ملک ہو گا‘ ان کی حکمرانی ہو گی‘ یہ تم سے کل غلامی کا مطالبہ کریں گے۔ تمہیں اپنا دین ثقافت اور امتیاز ملی چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔ پھر تمہیں غیر ملکی قرار دیں گے اور تم ذلت کے مارے تمام عمر اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہو گے۔ مگر یہ مان کر نہیں دیں گے۔ جمود ہے شیخ کی عقل پر کہ ہندو مربی کو یقین محبت دلاتے ہوئے۔اپنے مقدمے میں پاکستانی سبز ہلالی پرچم جلایا۔ مگر ہندو کی ذلت آمیز پٹائی سے پھر بھی نہ بچ سکا۔قیام پاکستان کو ناپسندیدہ بٹوارہ کہنے والوں کی زبان اب کیوں گنگ ہے۔ افسوس تو ان سیاسی اور مذہبی رہنمائوں پر ہے جن کے اکابر نے اپنی متاع حیات لٹا کر پاکستان کے قیام اور اہل اسلام کی سیاسی برتری کی راہ ہموار کی تھی اور اپنا سب کچھ راہ ہجرت میں لٹا کر پاکستان کو مقام عزت پر سرفراز کیا تھا۔یہ پاکستان کی وارث جماعت ہونے کی دعویدار موجودہ مسلم لیگیں ‘ ذاتی لیگیں‘ تجارتی لیگیں اقتدار کی پجاری لیگیں کہاں ہیں۔ اور ہمہ دم اسلام‘ اسلام‘ امہ کا نعرہ لگانے والے اسلام کی ڈھال میں پناہ گزین حکمران اپنی غیرت کو افیون دے کر سو گئے ہیں۔ دلی میں مسجد برباد ہو۔ بابری مسجد مندر میں بدل جائے‘محافظان قوم اب کس سوچ میں نئے بہلائوں کی تراکیب تراش رہے ہیں۔ ایک لفظ بھی تو مذمت کا نہیں نکلتا۔ دعویٰ عشق خدا و رسولﷺ کے بزر جمہروں کو خیال آیا کہ کسی بھی مومن پر ہونے والا ظلم روح مصطفی ﷺ کو ایذا رسانی کا سبب بنتا ہے۔ روز حکمرانوں کی دہلیز پر کشش پر اپنی پارسائی کی قیمت لگواتے ہوئے پیر زادے‘ مولوی‘علماء و مشائخ کنونشن کے نام پر شملے اونچے کرتے ہیں۔ مگر توفیق نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کے بھارتی قتل عام پر کچھ احتجاج کریں۔ اپنے حلقہ ہائے متاثرین کو بیدار کریں۔خوف خدا شاید ایک کلمہ بے معنی ہے ان کے نزدیک لیکن خوف ہی نہیں عذاب و عتاب کا ایک قدرتی قانون حرکت میں آیا چاہتا ہے۔ فطرت قیام قیامت سے پہلے ہی حشر اٹھا دے گی اور ہر جامد فریب کار قیادت سے علم قیادت چھین لے گی اور پھر نئے لوگ ‘ نئے طلب گار شہادت اٹھیں گے۔ نئے میدان لگیں گے معرکہ حق و باطل میں درندوں کو شکست اور ذلت آمیزی کی زندگی نصیب ہو گی اور مظلوموں کی داد رسی کے لئے فلک سے نصرت خداوندی آ کر رہے گی۔ لیکن خاموش تماشائیوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گا۔ حشر سے پہلے حشر کا سماں ہو گا اور منافقین جان بچاتے پھریں گے۔