سیالکوٹ میرے لیے محبتوں اور عقیدتوں کا شہر ہے۔ یہ میری پہلی ملازمت کا شہر ہے اور کہتے ہیں کہ پہلی ملازمت بھی پہلی محبت کی طرح ہوتی ہے، اس لیے یہ میری پہلی محبت کا شہر ہے۔ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ 1889ء میں اقبال جس شہر میں پڑھ رہا تھا، اس سے ایک صدی بعد میں اس شہر میں پڑھانے کے لیے آ گیا۔ مَیں اس شہر میں سات سو تیرہ دن مقیم رہا، یہ شہر اَب تک مجھ میں رہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی موقع ملتا ہے، مَیں پہلی ترجیح کے طور پر اس شہر کی یاترا کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہوں اور ہر بار ایک تازہ روحانی سرشاری اور ماضی کی یادوں کے خزانے کے ساتھ لَوٹتا ہوں۔ گزشتہ برس ڈاکٹر افضال بٹ کی دعوت پر، ڈاکٹر وحید الرحمن خان کی معیت میں ویمن یونیورسٹی میں اساتذہ کی بھرتی کے انٹرویوز کے لیے پہنچے، تو سارا فارغ وقت اپنے سابقہ کالج اور شہر اقبال و فیض کی مانوس سڑکوں، بازاروں کے التفات میں گزارا۔ اب کے موصول ہونے والی دعوت میں محبت اور عقیدت کا شیرہ بہت گاڑھا تھا۔ زہے نصیب کہ یہ دعوت اقبال منزل سے آئی تھی اور اس کو ممکن بنانے کی سعادت اے سی سیالکوٹ برادرم اسامہ شیرون نیازی اور ہمارے نہایت محترم جناب ڈاکٹر علی محمد خاں کے حصے میں آئی تھی۔ سفری سہولت کاری میں رانا نعمان اعجاز اپنے برادرِ خرم اعجاز کے ہمراہ ہمیشہ کی طرح پیش پیش تھے۔ یہ دونوں نوجوان ہمارے تلامذہ میں سے ہیں۔ رانا نعمان اب اگرچہ اپنی سپینش بیگم کی وجہ سے دور دیس کا باسی ہے لیکن جب بھی سپین فتح کر کے لَوٹتا ہے تو ہمیں اچھے دنوں کی طرح دستیاب ہوتا ہے۔ اس دن ہمیں اپنے محبوب شہر کے سفر کا اشتیاق ایسا تھا کہ ساڑھے آٹھ بجے کے متعین وقت پر ہی گھر سے روانہ ہو گئے۔ نو بجے رانا صاحب کی نہایت آرام دہ،دو ہزار سی سی اور دو ہزار بائیس ماڈل، ہنڈائی ٹسون سیالکوٹ کے نسبتاً ویران موٹر وے پہ قلانچیں بھررہی تھی۔ ہم نے محسوس کیا کہ خواہشات کی تکمیل کا سفر 660 سی سی کار کی بجائے کئی ہزار سی سی گاڑی میں زیادہ آسانی اور سہولت سے طے ہوتا ہے۔ جذب و شوق کا یہ عالم کہ ہم نے پہلی ٹھیکی ہی سیالکوٹ کینٹ میں واقع اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس میں لی، جہاں اسامہ صاحب اقبال منزل جانے کے لیے ہم سے بھی زیادہ مشتاق دکھائی دیے۔ اگرچہ وہ ایک بار وہاں سے ہو آئے تھے لیکن اس منزل کو بار بار جا لینے کی حسرت ان کی آنکھوں سے مترشح تھی۔ زندگی میں پہلا افسر نظر پڑا تھا، اقبالی عقیدت جس کے انگ انگ سے چھلک رہی تھی۔ انھیں اس شہر میں آئے ابھی بائیس دن ہوئے تھے۔ یہ بتا کے انھوں نے ہمیں مزید حیران کیا کہ’ چارج لینے کے فورا بعد مَیں نے پہلا کام خانۂ اقبال کی زیارت کا کیا اور وہاں کے ماحول سے ایسا سرشار ہوا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ انھی کیفیات کو شیئر کرنے کے لیے آپ لوگوں کو یہاں بلایا ہے۔چائے وغیرہ سے تازہ دم ہونے کے بعد ہم نے بلا تاخیر شاعرِ مشرق کی جنم بھومی کی راہ لی۔ کشمیری محلّے کا موٹر سائیکلوں اور رکشوں والی ٹریفک سے تنگ پڑتا بازار، جو سو ڈیڑھ سو سال قبل کافی کشادہ رہا ہوگا۔145 سال قبل کسے خبر تھی کہ ایک سادہ سے مردِ قلندر شیخ نور محمد اور نہایت گھریلو خاتون امام بی بی کے گھر جنم لینے والا یہ سپوت، ایک دن اُردو فارسی شاعری کا امام ثابت ہوگا، جس کے افکار کے نور سے عالم اسلام جگمگا رہا ہوگا۔ اس وقت اقبال منزل کا یہ منظر بھی دیدنی تھا جب ہمارے اے سی صاحب اپنی افسری اور جوتے اقبال منزل سے باہر اتار کر ہاتھ باندھے اقبال منزل میں یوں داخل ہوئے کہ خود اقبال کے اس شعر کی سی تصویر بنتی گئی: زندگی کی رہ میں چل، لیکن ذرا بچ بچ کے چل یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ زیرِ دوش ہے پھر وہاں کے انچارج ریاض نقوی کے ہمراہ پورے گھر کی دونوں منازل میں احتیاط سے رکھی اقبال سے وابستہ ایک ایک چیز کو عقیدت، وضاحت اور محبت سے دیکھتے گئے، دکھاتے گئے۔ اقبال کی پیدائش والا مختصر سا کمرہ، اس کے زیرِ استعمال رہنے والا جھولا، سونے والے کمرہ، اقبال کے تخلیقی وفور کی عینی شاہد نشست گاہ، مہمانوں سے ملنے کا کمرہ کہ جس کی خِشتی سیڑھی گھر والوں کو بے آرام کیے بغیر بازار سے سیدھی اس کمرے میں آتی ہے۔ قائدِ اعظم اور اقبال دونوں عظیم شخصیات ہیں لیکن مزاج اور رواج میں اتنا فرق ضرور تھا کہ قائد کو وقت لیے بغیر ملنا تقریباً ناممکن تھا لیکن اقبال کی درویشی اور عوامی مزاج کے پیشِ نظر لوگوں کو بلا پیشگی اطلاع بھی اُن سے ملنے کی اجازت تھی۔ یہ ایسی درویشی تھی کہ شہنشاہ جس کے کوچے کی گدائی کی تمنا لیے ہوئے تھے: کہاں سے تُو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا اقبال کی عظمت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ ایران کے ملک الشعرا بہار، انھیں نو سالہ اسلامی تہذیب کا نچوڑ قرار دیتے ہیں اور جناح ؒ اقبال کا سپاہی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک دورِ حاضر میں اسلام کی روح اور قرآن کے مفہوم کو اقبال سے بہتر کسی نے نہیں سمجھا۔ اسامہ شیرون نے یہ بتا کے ہمارا مان بڑھایا کہ آج کی یہ دعوت میری طرف سے نہیں بلکہ آپ کے آج کے میزبان خود اقبال ہیں، مَیں نے صرف آپ لوگوں کو مطلع کیا ہے۔ ایک صدی سے مرجعٔ خلائق اس گھر کو آنکھوں میں بھر کے، دل میں سجا کے، ہم نے بھی جانا: یہ جو اقبال سے محبت ہے یہ بھی اقبال سے محبت ہے ہم آج بھی اقبال کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ اپنے اپنے خاندانی ورثوں، زمینوں، طبی نسخوں، سیاسی کچھاروں، کھانوں کی تراکیب، نام نہاد روحانی سلسلوں، ناجائز پلاٹوں پہ سانپ کی طرح قابض لوگوں کی اس دنیا میں کوئی ایسا دیدۂ بینا بھی تھا جو برملا یہ کہتا رہا: خدایا آرزو میری یہی ہے میرا نورِ بصیرت عام کر دے خانۂ اقبال سے بادلِ نخواستہ نکلے تو تین دریاؤں بلکہ محبوباؤں ( جموں توی، منور توی اور چناب) کو ہمہ وقت اپنی باہوں میں سمیٹ رکھنے والے ہیڈ مرالہ سے ملاقات ہوئی۔ انجنیئر سجاد ظہیر بٹ نے 1966 میں قائم ہونے والے اس ہیڈ میں پانی کا رنگ دیکھ کے، اس کے مآخذ دریا اور تاثیر کا پتا چلا لینے کی دلچسپ رُوداد سنائی۔ جب بٹ صاحب کو ہمارے ایف سی سے تعلق کا علم ہوا تو انھوں نے یہ بتانے میں بھی فخر محسوس کیا کہ ان کے والد فارمانائٹ ہیں، جو ڈاکٹر یونگ (Ewing) کے زمانے میں یہاں زیرِ تعلیم تھے۔ پانیوں کی رانیوں کی حقیقت جاننے کے بعد ہم نے اے سی صاحب کے گھر میں ان کے سیالکوٹی باورچی کے ہاتھ کا مزے دار کھانا کھایا اور اپنے ایف جی کالج، صدر میں واقع اچھے وقتوں کے دوستوں، ایٹ مور، سلور سپون، گھنٹہ گھر، ماڈرن بک ڈپو، شمع پروانہ سینما، ڈرماں والا چوک اور سیالکوٹ میں اپنے پہلے رین بسیرے مہران ہوٹل پہ ایک جھات ڈالتے ہوئے، ماضی سے،حالیہ زندگی کی جانب مراجعت کی اجازت چاہی۔