لکھنے کے لئے ہر موضوع ‘ پرانا اور باسی لگ رہا تھا۔ جیسے کئی بار استعمال کا کپڑا دھل دھل کر اپنی چمک اورکشش کھو دیتا ہے۔ رنگ پھٹک کر بد رنگ سے ہو جاتے ہیں۔ یا پھر جیسے کوئی ایک ہی کھانا فرج سے نکال نکال کر ‘ گرم کر کے ‘ تڑکے لگا لگا کر کھاتارہے تو بالآخر اس کا دل اس کھانے سے بھر جاتا ہے۔ ایسے ہی آج صبح ہر موضوع سے قلم کا دل بھرا ہوا تھا۔ کوئی موضوع اپنی جانب کھینچتا نہ تھا۔ پھر میں نے ایک آزمائے ہوئے ٹوٹکے پر عمل کیا اور کاغذ پر یونہی‘ بغیر کسی خیال کے لکھنا شروع کر دیا۔ ذہن کا برتن خالی تھا کوئی اچھوتا خیال کوئی نادر سوچ اس کے دامن میں نہیں تھی۔ سفید کاغذ پر بے معنی ہے ربط لفظ‘ اترنے لگے۔ ایسے جیسے سفید رنگ کی شال پر کوئی کالے دھاگے سے آڑھے ترچھے بیل بوٹے بناتا رہے۔ بغیر کسی ترتیب اور سلیقے کے! لفظ جب خیال سے عاری ہوں توبے معنی ہو جاتے ہیں۔ لیکن میں نے جب ان بے ربط سے لفظوں کو رک کر ایک بار پڑھا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ ادھورے لفظ تو اندر کے خالی پن کی پوری کہانی سنا رہے ہیں۔ بلا شبہ لفظ بڑی طاقتور اورجاندار شے ہیں۔ خواہ کتنے ہی مبہم‘ بے ربط اور تسلسل سے عاری لکھے اور بولے جائیں ان میں بھی کوئی خیال کوئی کہانی‘ کوئی بات ضرور ہوتی ہے۔ لفظوں کے خانے ہمیشہ معنی سے بھرے رہتے ہیں۔ اسی لئے لفظوں کو ہمیشہ سلیقے اور احتیاط کے ساتھ برتنا چاہیے۔ ماہر نفسیات کسی مریض کے بند ذہن اور خاموش لبوں کی گرہ کھولنے کے لئے ایسی تکنیکس استعمال کرتے آئے ہیں جس میں مریض کو ایک خالی کاغذ اور قلم دیا جاتا ہے اور ا سے تنہائی میں چند منٹ بٹھا کر کہا جاتا ہے کہ اس خالی کاغذ پر کچھ لکھے۔ کچھ بھی جو اس کے ذہن میں آتا ہے۔ مبہم سا یا بے ربط سا‘ کوئی تصویر کوئی سکیچ کچھ بھی بنا دے۔ اس کے بعد مریض اس پر جو کچھ لکھتا ہے۔ یا کوئی تصویر بناتا ہے تو ماہر نفسیات ایک کھوجی کی طرح اس کی شخصیت کے نہاں خانوں میں چھپے ہوئے خیالات اور سوچوں کو دریافت کر لیتا ہے۔ وہ اس کے خواب‘ خواہشیں اور سوچوں کو پہچان لیتا ہے۔ بی اے کی طالبات کا ایک گروپ مطالعاتی دورہ پر بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کے شعبہ نفسیات میں گیا۔ وہاں موجود ماہر نفسیات نے ایک طالبہ کو ایک کاغذ اور قلم دے کر کہا کہ اس پر کوئی سکیچ بنائیں۔ یا کچھ بھی تحریر کریں۔ لڑکی نے اس سفید کاغذ پر ٹیڑھی میڑھی لائنوں سے ایک گھر کی تصویر بنائی۔ ایک طرف لکھ دیا ہوم سویٹ ہوم۔ ماہر نفسیات نے اس ایک سکیچ اور اس پر تین لکھے ہوئے لفظوں سے طالبہ کی زندگی کے سب سے بڑے خدشے‘ خواب اور مسئلے کا سرا جا لیا۔ پھر چند منٹ تک ماہر نفسیات نے اس طالبہ کے ساتھ ایک تھراپی سیشن کیا اور جان لیا کہ اس دور میں وہ طالبہ اپنے والدین کے درمیان علیحدگی کے باعث اپنے گھر کی بجائے اپنی ماں کے ساتھ نانا کے گھر مقیم تھی اور کم و بیش ایک برس سے وہ اس تکلیف دہ چیز سے گزر رہی تھی وہ اپنے گھر کو بہت بری طرح یاد کرتی تھی اور وہ اپنے گھر واپس جانا چاہتی تھی۔ وہ اپنے والدین کو ایک گھر میں دیکھنا چاہتی تھی۔ یہی اس کی نفسیاتی گرہ تھی جس کو ماہر نفسیات نے صرف تین لفظوں ہوم سویٹ ہوم اور ایک سکیچ سے پہچان لیا تھا۔ یہ سچا واقعہ کئی برس پیشتر کا ہے اور طالبات خان پور ڈگری کالج کی تھیں۔ آج نفسیات کے مضمون نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ Word clueکے نام سے رویوں کی سائنس کے ماہرین بولے ہوئے یا لکھے ہوئے چند لفظوں کی مدد سے پوری شخصیت کا تجزیہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ بولنا اب صرف بولنا نہیں ہے۔ ایک مکمل آرٹ ہے۔ فن گفتگو کے ماہرین دنیا بھر میں موجود ہیں جو سیکھنے والوں کو اس فن کی رمزیں سکھاتے ہیں کہ کس طرح بولنا ہے۔ بات کا آغاز کیسے کرتے ہیں۔ مخاطب پر اپنا تاثر خوشگوار چھوڑنے کے لئے آپ کو کیسے الفاظ کا چنائو کرنا چاہیے۔ گفتگو کے دوران آپ کی باڈی لینگویج بھی شامل ہو جاتی ہے اس کو کیسے پر اثر بناتے ہیں۔ گفتگو کے دوران خاموشی کے وقفے کے معنی کیا ہیں۔ گفتگو کا اختتام کیسے کرتے ہیں۔ Discourse Analysisجدید دور کا ایک مضمون ہے جو ہم نے ایم اے لینگو سٹیکس کے آخری سمسٹر میں پڑھا۔ اس میں جس باریک بینی سے گفتگو کو اینالائز کرنے کی تکنیک بتائی گئی ہے اس سے تو ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ گفتگو کرنا یا بولنا ایک ایسی چیز ہے جیسے کوئی ڈھکے ہوئے منظر سے پردہ ہٹا دے اور سب کچھ سامنے آ جائے۔ یہاں تک کہ گفتگو کے درمیان خاموشی کے وقفے بھی بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ آپ کے بولنے میں آپ کے لہجے کا زیر و بم اور اتار چڑھائو بھی بہت معنی خیز ہوتا ہے۔ تو ذرا سوچیے اپنے سماج کے بارے میں جہاں لہجے اتنے کریہہ‘ الفاظ تیز دھار اور سوچیں اتنی بے باک ہو جائیں کہ لفظوں سے آگ لگانے کا کام لیا جا رہا ہو۔ لفظوں کے وار سے مخالف کی دستار گرائی جاتی ہو۔ لفظوں کے خنجر دلوں میں گھونپے جاتے ہوں۔ اس معاشرے کے باطن کی ساری بدصورتی دنیا پر عیاں ہو جاتی ہے۔ منفی سوچیں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں بدقسمتی سے یہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم سے لے کر سوشل میڈیا پر اپنی سوچ دوسروں پر ٹھونستا ہوا ہر شخص بدزبان اور منہ پھٹ ہے۔ پورا سماج ایک دوسرے پر لفظوں کی کھنڈی چُھریاں چلاتا اور دوسرے کو اذیت میں مبتلا دیکھ کر حظ اٹھاتا ہے۔ حسن بہار کی بات اب ماضی کا قصہ ہے۔ ہم جیسے خورشید رضوی کے الفاظ میں دہائی بس دیتے رہ جاتے ہیں: میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت کا یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے!!