وہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، وہی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے تِرا نام لکھنا کتاب پر ، تیرا نام پڑھنا کتاب میں دوستو! اللہ کے فضل سے اس طویل مختصر زندگی کے بہت سے ذائقے چکھے ہیں، لیکن یہ بات پورے اعتماد اور وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان سب ذائقوں میں کتاب کا ذائقہ سب سے برتر و افضل بلکہ بے مثل ہے۔ میرا ایمان ہے کہ جو لوگ کتاب کی چاشنی، اہمیت، دوستی، ذائقے، فضیلت اور توقیر سے نا آشنا ہیں، ان کی اوقات یا حدود اربعہ کا احاطہ کرنے کے لیے ’’ بد قسمت‘‘ کا لفظ ناکافی ہے۔ دوستو! کتاب تو علم ہے، کتاب تو حکمت ہے، کتاب تو سکون ہے، کتاب تو ماضی ہے، کتاب تو حال ہے، کتاب تو مستقبل ہے، کتاب تو جز ہے، کتاب تو کل ہے، کتاب تو علم ہے، کتاب تو روشنی ہے، کتاب توعنایت ہے، کتاب تو سوغات ہے، کتاب تو بقا ہے، کتاب تو انا ہے، کتاب تو دوا ہے، کتاب تو دعا ہے، کتاب تو نور ہے، کتاب توسرُور ہے، کتاب تو وفور ہے، کتاب تونعمت ہے، کتاب تو رحمت ہے… کتاب کی حمایت میں اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ قادرِ مطلق نے جب بھی انسان سے مخاطب ہونا چاہا ہمیشہ کتاب کا سہارا لیا۔ لاہور شہر کی جو ادا ہمیں سب سے زیادہ پسند ہے، وہ یہی ہے کہ یہاں قدم قدم کتاب، صاحبانِ کتاب یا اہلِ کتاب سے واسطہ پڑتا ہے۔ اُردو بازار میں تو خیر ہمارا پھیرا سسرال سے بھی زیادہ ہوتا ہے، اور یہاں گاہے ماہے لگنے والے کتاب میلے کے دوران تو ہماری حالت فلمی وصال ’’ ہر دن ہووے ساڈا عید ورگا، ہر رات ساڈی شبرات ہووے‘‘ جیسی ہوتی ہے۔ لاہور ایکسپو سنٹر میں لگنے والے فروری /نومبر کے پانچ روزہ میلوں میں تو پنج وقتہ حاضری کے لیے جی مچلتا ہے۔پھر وہاں ایک ایک سٹال کے سامنے ہماری حالت بھی داغ دہلوی والی ہوتی ہے: دلِ ناداں مچلتا ہے کہ بس ہم تو یہی لیں گے ہمارا گزشتہ روز کا دورہ بھی احباب اور کتاب کی محبتوں سے لبالب ہے۔مذکورہ میلے میں ہماری ریڈنگ بالعموم ریڈنگز(READINGS) ہی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر انوار ناصر کا اہلِ لاہور پر احسان ہے کہ انھوں نے گلبرگ جیسے مہنگے اور کمرشل ترین علاقے میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا دفتر کھولنے، کوئی شاپنگ مال بنانے یاکسی بین الاقوامی فوڈ چین کا حصہ بننے کے بجائے ، ایک عظیم الشان کتاب مرکز کی بِنا ڈالی ہے، جو اہلِ وفا ئے حرف کی تسکین کا موجب ہے۔ پھر وہ اپنے باوقار سٹالز کے ساتھ ہر کتب میلے میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ اب کے بھی ہماری پہلی مُڈ بھیڑ اسی سٹال پر’ چالیس چراغ عشق کے‘ سے عالمی شہرت حاصل کرنے والی معروف ترک ادیبہ ایلف شفق کے ناول''10 Minutes and 38 seconds in this strange world'' اور برادر محمود الحسن ، جو اس وقت باوقار ادبی صحافت کی روشن علامت ہیں، کی مرتبہ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور کے دل آویز تأثرات پر مبنی، کتاب ’’ لاہور: شہرِ پُر کمال‘‘ سے ہوئی۔ یہ تینوں اُردو ادب کے وہ سپوت ہیں، جو کسی سیاسی جبر، مصلحت یاعجلت کی بنا پر خود تو لاہور سے نکل گئے، لیکن لاہور کبھی ان کے اندر سے نہیں نکل سکا۔ بعد ازاں میلہ گھومتے گھماتے، بعض احباب سے ملتے، بعض سے کتراتے علم و عرفان، دارالسلام، انجمنِ ترقیِ اردو، بک کارنر، سنگِ میل، صریر پبلیکیشنز، مکتبۂ کارواں، اردو سائنس بورڈ، مجلسِ ترقیِ ادب اور اقبال اکادمی کے سٹالز کی یاترا کی ۔ مزے مزے کی کتابیں دیکھیں بھی، خریدیں بھی۔ ’حکایاتِ سعدی ‘ اور ’حکایاتِ رومی‘ کے جانے کون کون سے ایڈیشن گھر میں موجود ہیں، لیکن خوبصورت طباعت دیکھ کے ایک ایک جلد اور اٹھا لائے۔ ’بولتی کتابیں‘ والوں کے سٹال پہ حسبِ روایت نئے سال کی ڈائری ہماری منتظر تھی۔ بامطالعہ اور خوش ذوق احباب میں جناب کاشف منظور، شہزاد نیئر، محمود ظفر اقبال ہاشمی، پروفیسر اکرم سعید، خرم عباس وِرک، لندن سے تشریف لائے جناب ڈاکٹر شاہد ضیاء اور آغا سلمان باقر سے ملاقات و مکالمے کی صورت بھی میسر آئی۔ اس میلے کی جو ادا ہمیں ہمیشہ مطمئن و مسرور کرتی ہے، وہ ہر عمر، ہر قبیل، ہر شہر، ہر مزاج، ہر طبقے، ہر صنف سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھرپور شرکت ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں یا امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید ہمارے معاشرے سے کتاب کلچر ختم ہونے والا ہے، انھیں یقینا یہاں پہلی فرصت میں جا کے، اور رنگا رنگ لوگوں کی جُوق در جُوق شرکت، کتاب میں دل چسپی اور گہما گہمی دیکھ کے حیرت ہوگی۔ بلکہ ہمارا تو مشورہ ہے کہ جو لوگ ابھی تک اس با مقصد موج میلے سے محروم ہیں ، وہ اسے اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں۔ یاد رکھیں وہاں نماز پڑھنے کا معقول بندوبست ہے، صاف ستھرے واش رومز میسر ہیں، کھانے پینے کے سٹالز موجود ہیں، چائے/ کافی کا انتظام ہے، وافر اور وسیع پارکنگ دستیاب ہے، نئی کتب کی تقاریب اور مزے دار مشاعرے ہوئے جا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں تصور آمیز معاشرت اور تصویر انگیز ماحول ہے، جس کا مزہ اچھی سے اچھی پکنک یا انوکھی سے انوکھی سیاحت سے بھی سوا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ علم کو ترسی ہوئی، اور آگہی سے پچھڑی ہوئی اس قوم کے لیے ایسے مواقع اور تقریبات کو تفریح اور تسکین کے ساتھ جوڑ دیا جائے، تو لوگوں کی علم و ادب سے دلچسپی خود بہ خود بڑھتی چلی جائے گی۔اس سلسلے میں حکومتوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ کاغذ اور پرنٹنگ مٹیریل پہ ٹیکسز کو کم سے کم کر کے کتاب کو سستا بنایا جائے۔ اس طرح کے کتاب میلوں کو سالانہ یا ششماہی کی بجائے ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پہ منعقد کیا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ ہر سہ ماہی میں گزرے یہ پانچ پانچ دن تعداد میں تو بے شک بیس ہی ہوں گے لیکن یہ بیس دن علم، کتاب، آگہی کی بیس (Base) مضبوط کرنے میں یقینا بے حد ممد و معاون ثابت ہوں گے۔