اگر موسم کے بیان کے لیے خزاں کے استعارے کی بات کی جائے تواِن دِنوں خزاں رُت ہے،بہت ہی سحرانگیز۔سحرانگیزی کا فسوں ،اُن لمحوں میں دوچند ہوجاتا ہے ،جب آسمان کو گہرے سیاہ بادل اپنی لپیٹ میں لے لیں اور سرد تیز ہوا بادلوں کو اُڑاتی پھِرے،اچانک بادلوں کا سینہ شَق ہوجائے بارش کی ننھی بوندیں ،پیڑوں کے زردپتوں پر پڑکر اُنہیں اپنے ساتھ لیے زمین پر آن پڑیں۔ زمین پر پیڑوں کے نیچے اور اردگردپتوں کی موٹی سی چادر بن جائے ،پانی کی بوندیں،پتوں کی چادر پر تیرتی پھریں۔پیڑوں کے حصار میں آئے ،گھروں کے باورچی خانوں کے روشن دان سے دھواں باہر کو جانے کی سعی کرے،تیز ہوا راستہ روکے،چائے کے کپ سے اُٹھتی ہوئی بھاپ کسی ماہ رُخ کی تصویر بنائے،پھر فضا میں تحلیل ہوجائے،پانی کی ننھی بوندیں آسمان سے اُترتی رہیں ،برآمدے میں بیٹھ کر سامنے مالٹے کے باغات کا دِن بھر نظارہ کیا جائے،کسی پیڑ کے نیچے مرغیاں دُبکی بیٹھی ہوں ،پرندوں کے پر بھیگ چکے ہوں ،وہ پیڑوں کے بدن پر بسیرا کیے ہوئے ہوں،برآمدے میں لحاف اُوڑھے سامنے کے نظاروں میں کھوئے ،دِن بیت جائے ،شام ہوجائے ،دُور کی مسجد سے مؤذن کی آواز گونجے،بھیگے میناروں کے سر جھک جائیں ،شام آن کی آن میں رات کی قبر میں اُتر جائے،دودھیا بلب کی ٹھنڈی روشنی میں بارش کی پھوار کا دیدار جاری رہے ۔ آہستہ بہ آہستہ گھروں کے باورچی خانوں سے اُٹھنے والا دھواں،ہوا کے گلے مل کر ہوا ہوجائے،رات پوری طرح اُتر پڑے ۔مسافر برآمدے سے کمرے کو گھر کرے۔چھت پر بارشیں کی بوندیں مدھم آواز پیدا کرتی رہیں،چوبی دروازہ سے ہوا کمرے میں گھسنے کی کوشش کرے، ہر بار ٹکرا کر ناکام لوٹ جائے، دروازے کا پٹ دوسرے پٹ سے ٹکرائے ،عجیب سی آواز کانوں میں پڑتی رہے،رات بدن سے گزرتی رہے،دُور کہیں بہت دُور کتے کے بھونکنے کی خفیف آواز زندگی کا احساس دلائے،مسافر کے دِل میں اطمینان پڑائو ڈالے، رضائی ماں بن کر لپٹی رہے،ایک طرف دِیا ٹمٹماتا رہے۔ آخرِکار رات بیت جائے، مگرخزاں نہ بیتے۔ خزاں کا فسوں ،نشہ ہے۔ خزاں کی صبح،اس کی دوپہر ،سہ پہر ،شام اور رات ،خدا کی نعمتیں ہیں۔خزاں میں پیڑ اپنا بدن جھاڑتے ہیں ،پتے زمین کے سینے میں آپڑتے ہیں اور پھر جذب ہو کر بہار کی کونپل بن کر پیڑکے وجود سے پھوٹ پڑتے ہیں۔ یہ خزاں رُت ہے ،موسم کے استعارے کے طورپر بھی اور ملک کے سماجی نظام کے طورپر بھی۔سماجی سطح پر خزاں کے تاریک سائے ،یہاں وہاں پھیلے ہوئے ہیں۔وزیرِ اعظم کو سرکاری ٹی وی پر ’’ڈرامے‘‘دکھانے کی فرصت نہیں ،جب فرصت کے لمحے میسر آتے ہیں توفلسفہ ٔ تصوف کی جامعات کے نقشے کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔شاید کہیں ایک ناول پڑھا تھا کہ اُس ناول کا مرکزی کردار ایک نئی دُنیا کی تشکیل کا دعویٰ کرتا ہے اورہر وقت نئی تعمیر کردہ نئی دُنیا کے ترانے گاتا ہے۔وہ اپنے عوام کو فخریہ بتاتا ہے کہ یہ میری تعمیر کردہ دُنیا کی یونیورسٹیاں ہیں ،یہ پارلیمنٹ ہے ،یہ عدالتیں ہیں ،یہ ہسپتال ہیں ،یہ دفاتر ہیں ،یہ بازار اور مارکیٹیں ہیں،وغیرہ وغیرہ۔لیکن کسی چیز کا وجود زمین پر نہیں ہوتا۔دَرحقیقت مرکزی کردار کے ذہن میں جو کچھ ہوتا ہے ،وہ سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ زمین پر بھی بعینہ ہی موجودہے۔ یہی آج کے حکمران کا مسئلہ ہے۔ہر آدمی کو چھت میسر ہے،ہر نوجوان کو روزگار مل چکا ہے ،مہنگائی ختم ہو چکی ہے ،مافیا کان پکڑ کر تائب ہو چکا ہے ،طاقت ور طبقات ،استحصال سے ہاتھ کھینچ چکے ہیں،غیر ملکی ڈراموں سے ہر دماغ میں روشن تاریخ جگہ بناچکی ہے،یہ ڈرامے نئی نسل کی ذہنی آسودگی کا ذریعہ بن چکے ہیں،آئے روز مختلف ٹی وی پرچلنے والے وزیرِ اعظم کے انٹرویوز عوام کے لیے اطمینانِ قلب کا باعث بن رہے ہیں، وغیرہ…رہا معاملہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا تو جلیل مانک پوری کا ایک شعر ہے :جوتھی بہارتو گاتے رہے بہارکا راگ؍خزاں جو آئی تو ہم ہوگئے خزاں کی طرف۔اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو خزاں کو بھی بہار قرار دیتی ہیں ،اقتدار کے مزے لوٹتی ہیں،جب اقتدار چھن جائے تو بہار کو بھی خزاں سے تشبیہ دے ڈالتی ہیں اور خزاں کی طرف دار بن جاتی ہیں۔خزاں کا استعارہ موسم کے رُوپ میں ہوتو رُومان انگیز ہے ،مگر سماجی زندگی کا رُوپ اُوڑھے تو تاریک اور منحوس سایہ بن جاتا ہے۔ہماری تہذیبی،سماجی ،سیاسی زندگی طویل عرصہ سے خزاں کی جکڑ میں ہے،یہ جکڑ اُس وقت مزید سخت ہوجاتی ہے جب اقتدار کے ایوانوں میں توازن بگڑتا ہے۔ سماجی زندگی درختوں سے جھڑچکے پتوں کی طرح ٹنڈ منڈ ہوتی جاری ہے۔ریاست کا تصور،محض نظام سیاست کا تصور بن چکا ہے اورسیاست اقتدار تک رسائی کا نام ہے۔اقتدار کی راہداری کے راستہ میں اُگے ہوئے کانٹے عام آدمی کے بدن کے آرپار ہوتے رہتے ہیں۔وباء کے دِنوں میں ہزاروں عام لوگ ،خاص لوگوں کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں خود کو وباء کے حوالے کررہے ہیں،مستزادموسم کی اشتداد ،اُن کے جسموں پر کریہہ قسم کے نقش چھوڑ رہی ہے۔مگر پھر بھی وہ گھروں سے نکلتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے اندر زور دار نعرہ لگانے کی سکت بھی نہیں ،اُن کی توانائی چھن چکی ہے ،توانائی چھیننے والے ،یہی خواص ہیں ،جن کے غم میں وہ مَرے جاتے ہیں۔وزیرِ اعظم کو ڈرامہ دیکھنے اور اپوزیشن کو ڈرامہ کرنے سے فرصت نہیں ملتی اور عام آدمی ڈرامے کا کردار نبھاتے نبھاتے مستقل طورپر ایک کردار بن چکا ہے۔ہر کردار ،اپنے تخلیق کار کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کردار میں جان بھرے یا پھر اُدھورا چھوڑ دے۔