روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں زراعت ، لائیو سٹاک اور ماہی پروری کے شعبوں سے وابستہ لاکھوں خواتین کو سماجی، قانونی اور معاشی تحفظ فراہم کرنے کے لئے مردوں کے برابر معاوضہ دینے کامسودہ قانون تیار کر لیا گیا ہے۔ سندھ میں وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے ہاریوں کی زندگی نسل در نسل غلاموں سے کچھ زیادہ نہیں۔ دیہی سندھ میں وڈیروں کے ہزاروں ہاری اور خاندانی ملازم کئی نسلوں سے غلامی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سماجی عدم مساوات اور انسانیت کی تذلیل کی اس سے بدترین مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ وڈیرے جب اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں تو ان کو خادمائیں بھی جہیز میں ملتی ہیں جو صرف دو وقت کی روٹی اور مالکن کے پرانے کپڑوں کے عوض خدمت پر مجبور ہوتی ہیں۔ اسی طرح بھٹہ مزدوروں کی طرح ہاری بھی وڈیروں کے زرخرید ہوتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے عوام کو زبان دی مگر بدقسمتی سے وہ بھی سندھ کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہے۔ اب حکومت سندھ نے غریب خواتین مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے مسودہ قانون تیار کیا ہے جو بلاشبہ لائق تحسین قدم ہے۔ بہتر ہو گا کہ باقی صوبے بالخصوص بلوچستان اور جنوبی پنجاب کی خواتین مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایسا ہی قانون نہ صرف متعارف کروائیں بلکہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ خواتین کو صحیح معنوں میں مساوی حقوق حاصل ہو سکیں۔