پاکستان سے آئے ہوئے کبوترکی جاسوسی کے پروپیگنڈے کے بعد بھارتی میڈیاپرکل سے یہ ڈھنڈوراخوب پیٹاجارہاہے کہ بھارتی فصلوں کوتباہ وبربادکرنے کے لئے پاکستان نے ٹڈی دل کو بھارت بھیج دیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ بھارت کبھی کبھی اپنے چہرے پرخود ہی زناٹے دارطمانچے مارکرنہ صرف دنیاکواپنے اوپرجگ ہنسائی کاموقع فراہم کرتاہے بلکہ اس سے بھارتی قیادت کاسیاسی چھل کپٹ کادم بھی پل بھرمیں پیوندخاک ہوجاتاہے ۔ پاکستان خوداس وقت ٹڈی دل کے خوفناک حملوں کاکس قدرشکارہے اس کے جگرسوز اورخون کے آنسوںرلادینے والی تصویرکی جھلک ایک تازہ رپورٹ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔اس رپورٹ میں بتایاگیاکہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لودھراں کے ایک گائوں کے زمیندار اسلام خان نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ چند روز قبل ٹڈی دل نے اس کی کپاس کی فصل پر حملہ کیا یہ ٹڈی دل اس کے ایک بڑے زرعی رقبے پر صرف 25منٹ کے لگ بھگ چھاگئی اور اس کے بعد ان کے 60 ایکڑیعنی 480کینال اراضی پرمشتمل کھیت پر کہیں کہیں ہی کوئی کپاس کا پودا سلامت بچاباقی کل من علیھافان۔توایسے میں بھارت کایہ کھلاپاگل پن سامنے آیاکہ پاکستان نے کورونااورچین کے حملوں کے دوران بھارت پرٹڈی حملہ کردیا۔ ٹڈی جسے عربی میںجراد کہاجاتاہے۔ بعث بعد الموت اور قیامت کی حالت کو حق تعالی جراد سے تشبیہ دے کر فرماتا ہے۔ یخرجون من الاجداث کانہم جراد منتشرترجمہ !جس روز لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو وہ ایسے معلوم ہوںگے جیسے ٹڈیوں کا لشکر جرار جو چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔جو ٹڈی اس وقت ہندوستان اورپاکستان کی فصلیں چاٹ رہی ہے، ٹڈی کی یہ قسم صرف گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے۔بعض محقق اسے حشرات الارض قراردیتے ہیں جبکہ بعض اسے پرندوں کی نسل بتاتے ہیں۔اسکی دواقسام ہیں۔ اس کی ایک نوع بری اوردوسری بحری ٹڈی کہلاتی ہے۔اس کی افزائش نسل انڈوں سے ہوتی ہے۔مادہ ٹڈیاں انسانی آبادیوں سے دور گرم علاقوں کی گرم ، تپتی، سخت اوربنجرزمین کاانتخاب کرکے اس میںسوراخ کرتی ہیں اورپھران سوراخوں میں انڈے دیتی ہیں اورزمین کی حرارت سے ان کے انڈوں سے انکی نسل پروان چڑھتی ہے۔رنگ ونسل کے اعتبارسے ٹڈیاں مختلف قسم کی ہوتی ہیں بعض بڑی ہوتی ہیں اور بعض چھوٹی اور بعض سرخ رنگ کی ہوتی ہیں اور بعض زرد رنگ کی اور جبکہ بعض سفید رنگ کی بھی ہوتی ہیں، ٹڈی کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں دو سینے میں دو بیچ میں اور دو آخر میں۔ ٹڈیاں ایک من ترنگ انداز میں ایک تبدیلی کے دور سے گزرتی ہیں۔ جب یہ ایک بڑے ہجوم کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور سبز خوراک والا علاقہ کم پڑنے لگتا ہے تو پھر یہ تنہا رہنے والی مخلوق نہیں رہتیں اور اپنے خول سے باہر نکل کر ننھی ننھی وحشی مخلوق بن جاتی ہیں۔ پھر یہ بڑے بڑے گروہوں کی شکل اختیار کرتی ہیں جوایک وبا کی مانند غارت گری کرنے والے جھنڈوں کی طرح پرواز کرتے ہیں۔ ایسے جھنڈ بسا اوقات بہت بڑے ہوسکتے ہیں۔ کسی ایک دن ان میں دس ارب سے زیادہ ٹڈیاں شامل ہو سکتی ہیں اور یہ سینکڑوں کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہو سکتی ہیں۔ہوا میں اڑنے والی ان ٹڈیوں کے جھنڈ میں دس ارب تک ٹڈیاں تک ہو سکتی ہے جو سینکڑوں کلومیٹر کے رقبے میں پھیل سکتی ہیں۔یہ ٹڈی دل ایک دن میں 200 کلومیٹر سفر کر سکتے ہیں۔ ایک ہی دن میں ٹڈیوں کا یہ جھنڈ اپنے کھانے اور افزائش کے لیے اتنے بڑے علاقے کی فصل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے کے مطابق اوسط ایک ٹڈی دل ڈھائی ہزار افراد کے لیے مختص اناج کو تباہ کر سکتا ہے۔ ٹڈی دل کا لشکر کئی کلو میٹر پر پھیلے کھیتوں کو پلک جھپکتے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کے بعد کسان کچھ نہیں کر سکتا۔ ٹڈی دل اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی فصل کا صفایا کر دیتا ہے اور یہ صرف منٹوں کی بات ہے۔جب فصلوں پرجب یہ حملہ آورہوتی ہیں توپورا،ایک لشکربن کرحملہ کرتی ہیںاورجس علاقے میں بھی یہ فصلوں پرامنڈآئیں تووہاں سوائے جڑ اورتنے کے سواکچھ بھی نہیں بچ جاتابسااوقات تنے بھی نہیں بچ پاتے۔ٹڈی دل مشرقی افریقہ اور قرنِ افریقہ کی فصلوں اور جانوروں کے چارے وغیرہ کو تباہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پورے خطے میں غذائی تحفظ خطرے میں ہے۔یہ تباہ کن ٹڈی دل پہلے صومالیہ ، ایتھوپیا اور کینیا میں تباہی پھیلا چکا ہے اور اب ہندوستان اورپاکستان میں فصلوں کو چاٹ رہاہے ۔ٹڈی دل گذشتہ برس صومالیہ اور ایتھوپیا میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر پھیلے کھیت تباہ کرچکے ہیں۔صحرائی ٹڈیاں مغربی افریقہ سے لے کر انڈیا تک محیط تیس ممالک میں پھیلے خشک آب و ہوا والے خطے میں رہتی ہیں ۔یہ تقریبا ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مربع کلو میٹر کا رقبہ بنتا ہے۔ یمن، سعودی عرب ، ایران ،مشرقی افریقہ ،صومالیہ اوراتھوپیا، اریٹریا، جبوتی اور کینیا تک کاساراعلاقہ ٹڈی دل کامتاثرہ ہے۔ اب ٹڈی دل نے پاکستان اورہندوستان میں کپاس، گندم، مکئی اور کئی دیگر اجناس کی فصلوں کو برباد کیا ہے۔پہلے پاکستان کے صوبہ سندھ اورجنوبی پنجاب کی فصلیں اورپھل اس وقت ٹڈی دل کی شکارتھیں اوراب بلوچستان اورخیبرپختونخواہ کے کئی اضلاع بھی اسے متاثرہیں۔ ٹڈی ان پرندوں میں سے ہے جو لشکر کی طرح ایک ساتھ پرواز کرتی ہے اور اپنے سردار کے تابع ہوتی ہیں اگر ٹڈیوں کا سردار پرواز کرتا ہے تو یہ بھی اسی کے ساتھ پرواز کرتی ہیں اور اگر وہ کسی جگہ اترتا ہے تو یہ بھی اسی کے ساتھ اتر جاتی ہیں۔بہت بڑے جھنڈ میں پرواز کرنے اورامنڈآنے کی وجہ سے ہی اسے ’’ٹڈی دل‘‘کہتے ہیں۔ماہرعلم الحیوان حضرت علامہ دمیری ؒ فرماتے ہیں ٹڈی میں مختلف جانوروں کی دس چیزیں پائی جاتی ہیں گھوڑے کا چہرا، ہاتھی کی آنکھ، بیل کی گردن، بارہ سنگا کا سینگ، شیر کا سینہ، بچھو کا پیٹ، گدھ کے پر، اونٹ کی ران، شتر مرغ کی ٹانگ اور سانپ کی دم ۔ علامہ فرماتے ہیں ٹڈی کا لعاب نباتات کے لیے زہر قاتل ہے اگر کسی نباتات پر پڑ جاتا ہے تو اسے ہلاک کر کے چھوڑتا ہے یہی وجہ ہے جس کھیت میں امڈ آتی ہیں اس کو تباہ وبرباد کرتی ہے۔