آج ملک کا منظرنامہ مختلف ہوگا ہر طرف لانگ مارچ موضوع بحث ہو گا بطور کالم نگار مجھے اس ہی پر کچھ لکھنا چاہئے لیکن میں معذرت چاہتے ہوئے دو تین پہلے کے رات سناٹے میں لگنے والی رونق کا ذکر کرنا چاہوں گا رات کے گیارہ بج رہے تھے اسلام آباد ہائی کورٹ کی دیوار کے ساتھ ہی روڈ پر نیوز چینل کی چھتری والی گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی تھی اس وقت اس عمارت میں سناٹا ہوتا ہے حفاظتی عملہ نیند سے لڑتا یا موقع ملنے پر خراٹے لیتا ملتا ہے لیکن آج یہاں غیر معمولی چہل پہل تھی ،پولیس کی گاڑیاں گشت کر رہی تھیں ، سکیورٹی اہلکار چوکس کھڑے تھے یہ سب سکیورٹی حصار میں ایک گاڑی کے منتظر تھے ۔ اتفاق سے میں بھی وہیں موجود تھااور یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا مجھے وہاں کراچی سنٹرل جیل کا برسوں پراناوہ منظر بھی یاد آگیاجس میں قیدی عورتیںحسرت و یاس کی تصویر بنی ہوئی تھیں،یہ لگ بھگ بیس برس پرانی بات ہے میں بطور صحافی کراچی ویمن جیل میں ان قیدی عورتوں کے درمیان موجود تھا ان میں بڑی تعداد ان کی تھیں جن کے مقدمات ابھی چل رہے تھے ان قیدی عورتوں میںکچھ کی گود میں شیرخواربچے بھی تھے ۔یہ معصوم فرشتے اپنی ماؤں کے ساتھ قید تھے کہ کہاں جاتے کچھ بچے تو ایسے تھے جو جیل ہی میں پیدا ہوئے ،اس وقت کی جیلر شیبا شاہ نے عجیب بات بتائی کہ ان قیدی عورتوں کے بچوں کے احساسات محسوسات بہت مختلف ہیں ،یہ بہت سے الفاظ بول نہیں سکتے کیوں کہ انہوں نے وہ الفاظ سنے ہی نہیں،یہ جب کبھی ماں کے ساتھ پیشی پر جیل جاتے ہیںتو آزاد دنیا دیکھ کر ڈر جاتے ہیں میں ان بچوں کے پاس گیااورسچ میں اسکا دل مسوس کر رہ گیا۔ مجھے وہ نوجوان قیدی عورت نہیں بھولتی جس نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی کہ اس کے بیٹے کے لئے کسی طرح دودھ کا انتظام کروادیں، وہ پڑھی لکھی تھی ا س پر سنگین نوعیت کا کوئی جرم تھا اور وہ چاربرس سے جیل میں تھی۔ وہ بتانے لگی میرا یہ بیٹا تین ماہ کا تھاجب یہاں آئی اب بھاگتا پھرتا ہے مجھ سے عجیب عجیب سوال کرتا ہے کہتا ہے امی یہ دیوار کیوں ہے ؟ مجھے اس دیوار سے باہر دیکھناہے۔ جب میرے ساتھ پیشی پر جاتا ہے توبار بارسوال کرتا ہے بہت تنگ کرتا ہے اس نے جب پہلی بارعدالتی احاطے میںکتا دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے ؟ اک بار قیدی گاڑی کی وین کی جالیوںسے میں اسے باہر کی دنیا دکھا رہی تھی تو سڑک پر گائے دیکھکر ڈر گیا ،وہ گلوگیر آواز میں بولی !آپ اخبار میں لکھیں کہ خدا کے لئے کچھ ایسا کریں کہ ہمارے کیس جلدی ختم ہوںہماری پیشیاںمہینوں نہیں ہوتیں۔ مجھے رحیم یار خان کے ان دو بھائیوں کی دل دہلا دینے والی کہانی بھی یاد ہے جن پرتہرے قتل کا الزام تھا۔ مقدمے کے مطابق انہوں نے 2فروری 2002باپ بیٹے اور بیٹی کو قتل کردیا ،غلام قادر اور غلام سرور دونوں بھائی مزید چھ افراد کے ساتھ گرفتار ہوئے ،دیگر رہا ہوگئے لیکن انہیں ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنا دی جسے لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا مقدمہ سپریم کورٹ گیادو رکنی بنچ کے سامنے پیشیاں ہوئیں اوریہاں بھی سزا برقرار رہی ،جان کسے پیاری نہیں ہوتی، ملزمان اپنی بے گناہی پر بضد تھے انہوں نے لارجر بنچ کے لئے اپیل کر دی بڑا بنچ لگا۔جسٹس آصف سعید چیف جسٹس تھے۔ آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں بنچ نے گواہوں کے بیانات میں جھول دیکھااور سوال اٹھایا کہ جن ثبوتوںکی بنیاد پر6 ملزمان بری ہوئے۔ ان ثبوتوں پر2افراد کو سزائے موت کیسے دی جا سکتی ہے ،عدالت نے ملزمان غلام قادراور غلام سرورکو تہرے قتل کے الزام سے بری کردیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جب ڈسٹرکٹ جیل رحیم یارخان رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ ملزمان 2013ء میں بہاولپور جیل منتقل کردیے گئے تھے۔ رہائی کی خوشخبری لے کر بہاولپور جیل پہنچا گیا تو یہ روح فرسا انکشاف منتظر تھا کہ انہیں تو 13اکتوبر 2015میں ہی زندگی کی قید سے رہا کیا جا چکا ہے ،دونوں بھائیوں کو پھانسی ہوچکی تھی۔ رات ساڑھے گیارہ بجے مجھے اقبال رانجھا بھی یاد آگیا وہ ایک نوعمر نابالغ لڑکا تھا جسے 1998 میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر منڈی بہاؤالدین میں بس میں ڈکیتی کے دوران ایک شخص کو قتل کرنے کاالزام تھا ۔نوعمر نابالغ ہونے کے باوجود اقبال رانجھا کا مقدمہ چلا اور پھر اسے موت کی سزا سنا دی گئی ،ملک میں سن 2000 میں’ ’جووینائل جسٹس سسٹم آرڈنینس 2000‘‘ آچکا تھا جس کے تحت نابالغ ملزمان کو موت کی سزا نہیں دی جاسکتی تھی اس کے باوجود اقبال رانجھا کو2016 میں پھانسی کی سزا سنا ئی گئی جس پر سوشل میڈیا پر کافی شور مچاتنقید ہوئی ایک این جی او نے اقبال کے کیس لڑنا شروع کیااس سے پہلے اقبال کی بڑی بہن صاحبہ سطان تن تنہایہ مقدمہ لڑ رہی تھی اس نے اقبال کو بچوں کی طرح پالا تھااو رقسم کھائی تھی کہ جب تک اسکا بھائی رہا نہیں ہوجاتا وہ چوڑیاں نہیں پہنے گی اورصاحبہ کو چوڑیاں پہننے میں بائیس سال لگے اقبال باعزت بری ہوکر باہر آگیا۔ وہ چڑھتی جوانی میں جیل گیا تھا اور اب ڈھلتی جوانی میں باہر آرہا تھا وہ انتالیس سال کی پکی عمر کامرد ہوچکا تھااسے خود پر الزام دھونے میں بائیس برس لگے ۔ جانے کتنے ہی چہرے میری آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں یہ سب میری اور آپ کی طرح سڑک چھاپ بے وسیلہ ووٹر تھے جن کیلئے اشرافیہ میں سے منتخب ہونے والے سیاست دان سبز باغ لگاتے ہیں۔ ان کی زندگیاں سنوارنے کی بات کرتے ہیں اور پھر اپنی زندگیاں سنوارنے لگ جاتے ہیں یہاں رعایا اور اشرافیہ کے لئے سب کچھ مختلف ہے رعایا میں سے کوئی پولیس کے ہاتھوں چڑھ جائے تو جیل اسے پی جاتا ہے ،اس کی بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدل جاتی ہے، کمر جھک جاتی ہے ،معمولی کیس میں بھی ملزم جیل میں سڑتا رہتا ہے،یہاں رحیم یار خان کے بھائی غلام قادر اور غلام سرور کی بریت کے فیصلے بعد میںآتے ہیں سزا پہلے ہوچکی ہوتی ہے۔ سوال اب بھی اس نظام عدل کے ذمے ہے کہ نوعمر اقبال رانجھاکواپنی بے گناہی ثابت کرنے میں بائیس برس کیوں لگتے ہیں۔ اسکی گرفتاری پر کوئی نوٹس کیوں نہیں ہوتا ؟ تفریق کیوں ہے،یہی تفریق اس ملک میں نظام عدل کے کنویں میں گرا وہ کتا ہے جسے نکالے بغیر کنواں پاک نہیں ہوسکتا اورہم اسے چھوڑ کرڈول پر ڈول کھینچ کھینچ کر کنواں خالی کرنے میں لگے ہوئے ہیں !