روزنامہ 92 نیوز میں ریڈیو پاکستان ملتان کے بارے میں میرا کالم شائع ہوا تو ریڈیو سے وابستہ بہت سے افراد کے فون آئے ۔ ان میں کچھ حاضر سروس اور کچھ ریٹائرڈ ملازم تھے۔ ملتان سے بھی زیادہ ریڈیو پاکستان بہاولپور سے وابستہ افراد کے فون آئے ۔ کالم کی پسندیدگی کے ساتھ خواہش ظاہر کی کہ ریڈیو پاکستان بہاولپور کے بارے میں بھی لکھا جائے کہ ریڈیو پاکستان بہاولپور بھی اسی طرح کے مسائل کا شکار ہے جس طرح ریڈیو پاکستان ملتان ۔ البتہ بعض حالات میں ریڈیو پاکستان بہاولپور زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے کہ اس کی بلڈنگ خستہ ہے اور اپنے قیام سے لیکر آج تک 10 کلو واٹ کا چلا آ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے سربراہ کی حیثیت سے بہاولپور آئے تو انہوں نے بہاولپور میں ریڈیو اسٹیشن کے قیام کا اعلان کیا ۔ 18 اگست 1975ء کو افتتاح ہوا ۔ افتتاح کے وقت کہا گیا کہ بہت جلد یہ اسٹیشن 100 کلوواٹ کا ہو جائے گا۔ مگر آج تک یہ نوبت نہیں آ سکی ۔ صادق آباد پرائیوٹ ایف ایم ریڈیو سے وابستہ حمید کنول اور خانپور ایف ایم سرائیکی آواز سے وابستہ قاضی راحت نے یہ بھی کہا کہ مجوزہ اسٹیشن رحیم یارخان کی بھی بات ہونی چاہئے کہ رحیم یارخان میں ریڈیو اسٹیشن کے قیام کا اعلان ہوا تھا مگر اتنے بڑے شہر میں ایف ایم ریڈیو بھی نہیںہے ۔ لیاقت پور سے ساغر اللہ آبادی نے کہا کہ سابق ڈی جی ریڈیو مرتضیٰ سولنگی نے وسیب میں 8 ریڈیو اسٹیشنوں کے قیام کا اعلان کیا تھا مگر کوئی نیا اسٹیشن قائم نہیں ہو سکا ۔ ریڈیو پاکستان بہاولپور نے اپنے قیام کے بعد بہت سے اعزازات حاصل کئے اور مقامی ٹیلنٹ کو تلاش کرنے میں ریڈیو پاکستان بہاولپور کا بہت حصہ ہے۔ ریڈیو پاکستان بہاولپور کا شعبہ موسیقی بہت مضبوط تھا ۔ جس سے نئی آوازوں نے جنم لیا اور پرانے گلوکاروں کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی ۔ ان گلوکاروں میں عظیم کلاسیکل گائیک حسین بخش خان ڈھاڈھی ، جمیل پروانہ ، نصیر مستانہ ، زاہدہ پروین ، فقیرا بھگت، حسینہ ممتاز ، عاشق رمضان ، سخاوت حسین ، پروین نذر، اعجاز توکل خان ، گلبہار بانو، سلطانہ سحر، شازیہ طالب ، شیریں کنول ، امیر حسین خان ، صادق مور، صابر مور ، موہن بھگت ، آڈو بھگت، سُمار لعل بھیل ، مائی اللہ وسائی ، کرشن لعل بھیل ، مائی دادلی اور بہت سی دوسری آوازیں شامل ہیں ۔ مگر فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے شعبہ موسیقی مکمل طور پر بند ہے۔ موسیقی کے شعبے کی بندش سے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ میوزیشن اور دوسرے متعلقہ لوگ بھی کسمپرسی کا شکار ہیں ۔ ریڈیو پاکستان بہاولپور کے آرٹسٹ ایس ایم سلیم جو کہ ریڈیو کے قیام سے لیکر 2018ء تک ریڈیو سے وابستہ رہے ، نہ صرف یہ کہ وہ مستقل نہ ہو سکے بلکہ کینسر کا عارضہ لاحق ہوا تو ریڈیو پاکستان بہاولپور کی طرف سے ان کا علاج بھی نہ کرایا جا سکا اور وہ کینسر کی موت سے جنگ لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے ۔ وہ ریڈیو پاکستان کے فخر تھے کہ وہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپویشن ایکسیلنس ایوارڈ یافتہ فنکار تھے۔ اسی طرح ڈرامے کا شعبہ بھی فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند ہے ۔ اس شعبے سے بھی بہت سے آرٹسٹ، صدا کار ، تخلیق کار اور اداکار پیدا ہوئے ۔ جن میں عالمی شہرت یافتہ ظہور نظراور اکرم شاد کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ریڈیو پاکستان بہاولپور کے دیگر شعبہ جات بھی فنڈز کی کمی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں ۔ جس طرح ریڈیو پاکستان ملتان میں سٹاف اور فنڈز کی کمی کا ذکر ہوا تھا ، یہی پوزیشن ریڈیو پاکستان بہاولپور کی ہے ۔آج وسیب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بر سر اقتدار ہیں ان کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ریڈیو پاکستان بہاولپور کی عمارت اور مشینری 20 سال قبل اپنی طبعی عمر پوری کر چکی تھی ۔ خستہ حال بلڈنگ کسی بھی وقت حادثے کا موجب بن سکتی تھی۔ اسٹیشن ڈائریکٹر سید طارق شاہ نے حال ہی میں ہمت کر کے کم خرچ میں بلڈنگ کو مرمت کرایا ہے۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو اسٹیشن کی نئی بلڈنگ بنائی جائے اور خصوصاً چار دیواری کا مسئلہ حل کیا جائے کہ سکیورٹی کے مسائل ہر جگہ موجود ہیں ۔ آج جبکہ چھوٹے چھوٹے سکولوں کی دیواریں بھی مضبوط اور اونچی کرائی گئی ہیں تو ایک حساس ادارے سے غفلت جرم کے زمرے میں آتی ہے ۔ یہ ستم بھی دیکھئے کہ ریڈیو اسٹیشن کی موجودہ دیوار ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے بنوائی ۔ حالانکہ ریڈیو بہت بڑا ادارہ ہے ، یہ کام اسے خود کرنا چاہئے۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والے سید عمران گردیزی ریڈیو پاکستان کے ڈی جی بنے تو انہوں نے وعدہ کیا کہ اس ضمن میں جلد اقدامات ہونگے مگر ابھی تک چار دیواری نہیں بن سکی۔ یہ ٹھیک ہے کہ جناب عمران گردیزی نے بہاولپور کو ایف ایم 101 کا تحفہ دیا مگر افسوس کہ اس کے لئے الگ سے بجٹ نہ دیا گیا اور نہ ہی اضافی سٹاف ۔ جس کے باعث 17 گھنٹے کی نشریات میں صرف ایک آدھ پروگرام مقامی ہوتا ہے باقی تمام پروگرام اسلام آباد سے چلتے ہیں ۔جس سے مقامی سامعین کے لئے کچھ نہیں ہوتااور ان پروگراموں کا نشر ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ریڈیو کے دورے کے وقت عمران گردیزی کو سٹاف کی کمی ، شعبہ پروگرام ، شعبہ ایڈمن ، شعبہ اکاؤنٹس ، شعبہ انجینئرنگ کی زبوں حالی کے بارے میں بتایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میرا تعلق بہاولپور سے ہے ۔ اگر میں نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ مگر وہ ریٹائرڈ ہو گئے ، ریڈیو اسٹیشن کی حالت نہیں بدل سکی ۔ مشرف دور میں محمد علی درانی وزیراطلاعات بنے تھے تو انہوں نے بھی وعدے کئے مگر ریڈیو پاکستان بہاولپور کی بہتری کیلئے کوئی کام نہ کیا ۔ فنڈز کی کمی کا ایک حل یہ بھی ہے کہ پی ٹی وی فیس کا نصف حصہ ریڈیو کو دے دیا جائے ۔ وسیع ترین صحرائے چولستان سے وابستہ ریڈیو پاکستان بہاولپور کی بہت اہمیت ہے کہ ہوا کے دوش پر آواز کی یہ لہریں کبھی انڈیا تک سنائی دیتی تھیں ۔ دیکھا جائے تو ریڈیو پاکستان بہاولپور کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ بہاولپور بھارت کے بارڈر سے ملتا ہے جو قومی ادارہ ہونے کے ناطے یہاں سے بہتر انداز میں قومی مفادات کی آواز اٹھائی جا سکتی ہے ۔ جس طرح بھارت اپنے ریڈیو کو پروپیگنڈا چینل کے طور پر استعمال کرتا ہے ، اسی طرح ریڈیو بہاولپور بھی اس سلسلے میں بھرپور خدمات سر انجام دے سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو پاکستان بہاولپور کا درجہ بڑھا کر اسے 10 کی بجائے 100 کلو واٹس میں تبدیل کیا جائے ۔ نئی عمارت اور نئی مشینری اور مکمل سٹاف و فنڈز کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ریڈیو پاکستان بہاولپور کو نئے سرے سے زندہ کیا جائے ۔ کیا وزیراعظم عمران خان اور مشیر اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان وسیب کے مسئلے پر توجہ دیں گے؟