جن موضوعات پر لکھنا سب سے مشکل لگتا ہے، ان میں ایک کشمیرکا المیہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ، بے قصور کشمیریوں کو اتنی بڑی سنگین آزمائش کا سامنا ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے لفظ حقیر بے وقعت محسوس ہوتے ہیں۔آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ ان عزم وہمت کے پیکروں کو کیسے تسلی دے ، ان کا حوصلہ بندھائے۔ دکھ ان پر بارش کی طرح برس رہے ہیں، کبھی نہ مدھم ہونے، نہ رکنے والی بارش۔ ایک ایسی تاریک شب ہے جس کے جلد ختم ہونے کا امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ ہر گزرتا دن ان کی تکلیف اور کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔ کم از کم دو نسلیں ہیں جو برباد ہوگئیں۔ جن کی جوانی ا ن کے لئے صبر آزما آزمائش بن گئی۔ تحریک آزادی کشمیر کے مختلف فیز رہے ہیں، پچھلے نو دس برسوں سے خالصتاً مقامی مزاحمت،عوامی احتجاج کا دور چل رہا ہے۔ مسلح جدوجہد کی طرف کچھ نوجوان گئے، مگر وہ سب مقبوضہ کشمیر کے معروف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سرحد پار سے آئے ۔جو مسلح جدوجہد نہیں کر رہے، امتحان ان کا بھی کم کڑا نہیں، دن رات انہیں بھارتی فوج کے ظلم وجبر کا سامنا ہے۔ پتھروں سے وہ جدید ترین اسلحے سے لیس بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے ہیں۔ روزانہ کئی لوگ شہید ہورہے، اس کے باوجود تحریک مزاحمت بڑھتی ہی جاتی ہے۔ نوعمر لڑکے مسیں بھیگنے پر اس جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں، ان کی آنکھوں میں رنگین سپنوں کی جگہ لہورنگ خواب آ بسے ہیں۔ اپنی زندگیاں انہوں نے بھارتی استبداد سے آزادی کے لئے وقف کر دیں۔نتائج سے بے پروا ہو کر، سودوزیاں سے بے نیاز۔ آج بھارتی شکنجے میں جکڑے کشمیر پر مزید کڑا وقت آ گیا۔ بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو جھوٹا دلاسا دینے کی خاطر سہی، مگر چند ایک رعایتیں اور خصوصی سٹیٹس دیا گیا تھا۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370انہیں خصوصی تحفظ دیتا تھا، جس کی رو سے بھارت کا کوئی غیر کشمیری شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔ اسے ووٹر بننے کا حق بھی نہیں تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کہیں کشمیر میں بھارتی حکومت کے ایما پر بھارت بھر سے لاکھوں لوگ کشمیر آ کر آباد نہ ہوجائیں اور پھر ایک دن کشمیری کشمیر میں اقلیت نہ بن جائیں۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل پینتیس اے کشمیریوں کو ایک اور رعایت دیتا تھا کہ آئین میںآرٹیکل 370کے حوالے سے کوئی ترمیم اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک (مقبوضہ)کشمیر کی دستور اسمبلی اس کی اجازت نہ دے۔ اب پوزیشن یہ ہے کہ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی ساٹھ پینسٹھ سال پہلے اپنی مدت ختم کر کے تحلیل ہوگئی اور اس نے آرٹیکل تین سو ستر کے خلاف کوئی رائے نہیں دی۔عملی طور پر اس لئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ ایسا مگر ہوچکا ہے۔ کشمیر میں بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ بی جی پی کا غلبہ ہوچکا، اپوزیشن کمزور ہے، بھارتی میڈیا مفلوج تو اب کہیں کشمیری خصوصی سٹیٹس ختم نہ ہوجائے۔ گزشتہ روز ایسا ہوگیا۔اس پر ہونے والے ردعمل کو دبانے کے لئے ہزاروں فوجی مزید منگوائے جا چکے ہیں۔ عوامی احتجاج کو مزید بے رحمی اور سفاکی سے کچلا جائے گا۔ کشمیر میں ظلم کی اور بہت سی خوفناک داستانیں لکھی جائیں گی۔ تکلیف دہ رات مزید طویل اور کٹھن ہوجائے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم اور جوابی طور پر کشمیریوں کا عزم دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انسانی جذبہ اس قدر توانا، مضبوط ہوسکتا ہے۔ بھارت کی نڈر صحافی اور ادیبہ اروندھتی رائے نے پچھلے سال ایک ناول لکھا The Ministry of Utmost Happiness۔ اس کا اردو ترجمہ ’’بے پناہ شادمانی کی مملکت‘‘کے نام سے محترمہ ارجمند آرا نے کیا۔ خاص بات یہ ہے کہ ترجمہ اروندھتی رائے نے خود سنا اور اس کی منظوری دی یعنی مصنف کا اعتماد اس میں شامل ہے۔ اروندھتی رائے نے کمال ناول لکھا ہے، اس کا دوسرانصف حصہ کشمیر کے المیہ کے گرد گھومتا ہے۔ اروندھتی رائے سری نگر اور دیگر شہروں میں جا کر رہیں اور بہت سے لوگوں سے تفصیلی گفتگو کی۔ اپنے ناول میں مصنفہ نے ان تمام نکات کو کمال مہارت سے سمو دیا۔ بھارتی فوج اور تفتیش کرنے والے جو خوفناک مظالم ڈھا رہے ہیں، ان کا اندازہ اس ناول کو پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ ناول کا کردار امریک سنگھ سپاٹر ایک انٹیلی جنس افسر ہے ، انتہائی سنگ دل اور بے شرمی کی حد تک ڈھیٹ یہ شخص کشمیر میں بے شمار ہلاکتوں کا باعث ہے۔امریک سنگھ اور اس کے دیگر انٹیلی جنس افسروں نے مزاحمتی ذہن رکھنے والے کشمیری نوجوانوں کو ڈھونڈنے کے عجب طریقے تخلیق کر رکھے تھے۔ کہیں پر فائرنگ ہوتی، دھماکہ ہوتا اورپھرجب بے گناہ مرنے والوں کا جنازہ اٹھایا جاتا تو بھارتی انٹیلی جنس کے مخبر شرکا کے ردعمل پر نظر رکھتے۔ جو زیادہ جذباتی اور پرجوش نظر آتا، اسے اسی رات اٹھا لیا جاتااور پھر وہ زندہ سلامت واپس نہ آپاتا۔ اگر کسی افسردہ کا ردعمل مایوسی والا ہوتا، وہ غم کی شدت سے نڈھال ہوتا، کھویا کھویا رہتا تو اسے بھی پکڑلیا جاتا کہ یہ بھی ’’پوٹینشل‘‘ مجاہد ہے، انہی کے ساتھ جا ملے گا۔ ایک بار تفتیشی کیمپ میں جانے والا واپس نہ آسکتا۔ اگر کوئی لوٹ آتا تو اس کی حالت دیکھ کر لوگ گھروالوں کو مبارک باد دینے کے بجائے اظہار افسوس کرتے ۔ناول کا اہم کردار موسیٰ یسوی ایک آرٹسٹ تھا ، بھارتی فوج کی فائرنگ سے اس کی بیوی اور اکلوتی بیٹی شہید ہوگئی تواس نے باقی زندگی مزاحمت کا فیصلہ کیا اور ہتھیار اٹھا لیا۔ موسیٰ یسوی کی زبانی اروندھتی رائے کشمیری تحریک مزاحمت کے بہت سے پہلوئوں سے متعارف کراتی ہے۔ ایک جگہ پر موسیٰ یسوی جو کمانڈر گلریز کے نام سے مشہور ہے، وہ بتاتا ہے کہ آخر اتنے ظلم وستم کے باوجود کشمیری مزاحمت پر کیوں ڈٹے ہوئے ہیں۔کمانڈر کے مطابق: ’’جانتے ہو ہمارے لئے سب سے مشکل کام کیا ہے؟تر س سے ۔ اپنے اوپر ترس کھانا ہمارے لئے بہت آسان ہوتا ہے ۔ کتنی خوفناک باتیں ہمارے لوگوں پر گزری ہیں، ہر گھر کبھی نہ کبھی جہنم سے گزرا ہے لیکن اپنے اوپر رحم کھانا اس قدر، اتنا زیادہ مفلوج کر دیتا ہے۔ کتنی ذلت محسوس ہوتی ہے۔ آزادی سے بھی زیادہ اب یہ جنگ وقار کی جنگ ہے۔ اپنے وقار کو بچائے رکھنے کا ہمارے پاس ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ جنگ کریں۔ ہار ہی کیوں نہ جائیں۔ مر ہی کیوں نہ جائیں۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں، جیسا کہ بھارتی مصنفہ نے اپنے کردار سے کہلوایا کہ کشمیری اپنے وقار کی جنگ بڑی جرات اور دلیری سے لڑ رہے ہیں۔ اپنے اوپر ترس کھانے، مظلوم بننے کے بجائے وہ دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ ایک باوقار، خود دار، زندہ قوم کیسی ہوتی ہے؟ وہ بے حمیت محکوموں کی طرح بزدلی اور منافقت سے جینے کے بجائے سربلند ہو کر اپنے سینے گولیوں کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ ایک گرتا تو دوسرا اس کی جگہ لیتا ہے۔ جانے کب تک یہ چلے گا۔ کشمیری تو اس سے بے نیاز ہیں۔ وہ واقعی اپنے وقار کی جنگ بڑی تمکنت اور شان سے لڑ رہے ہیں۔ ہمیں سوال اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ ہم جوکشمیر کو اپنی شہہ رگ کہتے ہیں، ہم ان کا کس حد تک ساتھ دے رہے ہیں؟ یہ درست کہ اب پراکسی وار کا زمانہ نہیں، کھلی جنگ لڑنا بھی شائد ہمارے لئے اس وقت ممکن نہیں۔ کمزورمعیشت کے ساتھ ہم اپنا دفاع بمشکل کر پا رہے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ ہمیں کھڑا تو رہنا چاہیے۔ ہم ان کا ساتھ دینے کا کام تو پورے وقار سے کریں۔ دنیا کو بتائیں کہ پاکستانی مظلوم کشمیریوں کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔ حکومت سفارتی محاذ پر جنگ لڑے، پارلیمنٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں بھرپور اظہار یک جہتی کرے۔ عوامی سطح پر بھی ہمیں احتجاج کا کوئی منظم راستہ نکالنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے اس دورمیں اگر کروڑوں نہ سہی، لاکھوں لوگ ہی منظم ، اجتماعی اظہار یک جہتی کریں تو دنیا بھر میں اس کی تصویریں ، ویڈیوز وائرل ہوجائیں گی۔ فیس بک ہمیں ڈی پی لگانے کی اجازت نہیں دے گی۔فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر … ان تمام پر بھارتی اثرورسوخ کے باعث ہمیں کوئی رعایت نہیں مل سکتی، اس کے باوجود کشمیریوں کے ساتھ بھرپوراظہار یک جہتی کے طریقے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب کے ماہرین ، بلاگرز کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ اس حوالے سے کوئی قابل عمل لائحہ عمل بنایا جائے۔اس بحران کے وقت میں ہمیں اپنے کشمیری بھائیوںکے ساتھ کھڑے ہونے، ان کا غم بانٹنے اور دل سے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔