وزیراعظم عمران خان کی حکومت بنے اڑھائی سال سے زیادہ ہوگئے۔ وہ اپنی حکومت کی نصف مدت گزار چکے۔ وہ خوش قسمت انسان ہیں کہ ملک کی دو بڑی‘ پرانی سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کروزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچ گئے۔لیکن انکی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں بہت خراب حالات میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔جب انہوں نے حکومت سنبھالی تو ملک کو نادہندگی کا سامنا تھا۔ انکا ایک ڈیڑھ سال زر مبادلہ کا بحران حل کرنے کی تگ و دو میں گزر گیا۔ عالمی مالیاتی فنڈز کی کڑی شرائط نے انکے ہاتھ باندھ دیے۔ اسکے بعد ایک سال سے کورونا وبا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ حکومت کی بیشتر توانائی اور وسائل اس وبا سے نپٹنے میں صرف ہورہے ہیں۔تاہم انکی حکومت کی کچھ کمزوریاں بھی ہیںجن پر وہ اڑھائی برسوں میں قابو نہیں پاسکے۔ عوام کووزیراعظم عمران خان سے جو توقعات تھیں وہ اب تک پُوری نہیں ہوسکیں۔ اُنکے حامیوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔انکی حکومت اب تک کوئی ایسا کام مکمل نہیں کرسکی کہ عوام کو موجودہ حکومت اور ماضی کی حکومتوںمیں واضح فرق محسوس ہو۔ کوئی کام جس سے عوام کو محسوس ہو کہ انکی زندگی میں قابلِ ذکر تبدیلی آئی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال ہوگئے ہیں۔ اگلے برس انکی مدت پوری ہونے پر نئے بلدیاتی الیکشن کروانے پڑیں گے۔ الیکشن مہم میں پی ٹی آئی کے امیدواراپنی حکومت کے کونسے کارنامے لیکر عوام سے ووٹ مانگیں گے؟ لوگ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو عمران خان کے وہ وعدے یاد کرائیں گے جو انہوں نے جنرل الیکشن کی مہم کے دوران میں کیے تھے لیکن اُن میں سے کوئی بھی ابھی تک پُورا نہیں کیا جاسکا۔ نہ ترقیاتی کام نظر آرہے ہیں نہ اداروں میں اصلاحات۔ عدلیہ‘ پولیس‘ ایف بی آر میںذرّہ برابر تبدیلی نہیں لائی جاسکی۔ پچاس لاکھ مکان تو دُور کی بات ہے اب تک تو پچاس ہزار مکان بھی نہیں بن سکے۔ ایک کروڑ نئی ملازمتیں دینے کا وعدہ تھا لیکن معاشی حالات اتنے خراب ہیں کہ لاکھوں لوگ معاشی مندی کے باعث بے روزگار ہوگئے ہیں۔ زراعت کا حال بہت پتلا ہے۔ گندم اور کپاس کی پیداوار بہت کم ہوگئی ہے۔حکومت زراعت کی ترقی کے لیے کوئی متحرک‘ فعال کردار ادا نہیں کرسکی۔ گندم ‘ چینی اور کپاس بیرون ملک سے درآمد کی جارہی ہیں۔ گزشتہ اڑھائی برسوں میں دیہات میں غربت ‘ بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔احساس کیش پروگرام کے مستحقین میں تقسیم کیے گئے چند ہزار روپے اسکا مداوانہیں ہوسکتے۔یہ بات درست ہے کہ اس خراب صورتحال میںسارا قصورموجودہ حکومت کا نہیں ہے ۔ ماضی کی معاشی پالیسیاں اور کورونا وبا نے بھی بہت نقصان پہنچایا ہے لیکن عام لوگ ان باریکیوںمیں نہیں پڑتے۔ وہ نتیجہ چاہتے ہیں۔ نامساعد حالات کے علاوہ قصوراس ٹیم کا بھی ہے جو عمران خان نے اپنے لیے منتخب کی۔ مثلاً پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا جن کا صوبائی وزیر کی حیثیت سے بھی تجربہ نہیں تھا۔ وہ اپنی بات کا ابلاغ ہی نہیں کرسکتے۔ افسر شاہی پر انکی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب کی افسر شاہی بے لگام گھوڑے کی طرح ہے۔ اس افسر شاہی کو شریف خاندان نے بے حد نوازا اورسرکاری حیثیت استعمال کرکے مال و دولت بنانے کی کھلی چھٹی دی ہوئی تھی۔پی ٹی آئی کی حکومت نے اسکی ناجائز مراعات ختم کردیں۔اس بیوروکریسی کو لگام ڈالنے اور اس سے کام لینے کی خاطر ایک مضبوط ‘ سخت منتظم درکار تھا۔ عمران خان بار بار پنجاب کے چیف سیکرٹری اور پولیس سربراہ کو تبدیل کرتے رہے لیکن عثمان بزادر کی جگہ مضبوط وزیراعلیٰ نہیں لاسکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پنجاب میں کبھی آٹے کا بحران ہوجاتا ہے کبھی چینی کا۔ انتظامیہ مصنوعی مہنگائی ختم کروانے میں ناکام ہے۔ افسر وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ڈرتے نہیں۔نہ وہ انکے احکامات کااحترا م کرتے ہیں ۔افسر شاہی نے پنجاب میں جان بوجھ کر ’گو سلو‘ (سست رفتاری سے کام) کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے تاکہ موجودہ حکومت ناکام ہو۔ اسکی وفاداریاں شریف خاندان کے ساتھ ہیں جس نے انہیں ناجائز مال و دولت سے نوازا۔ عمران خان اسکا کوئی موثر توڑ نہیں کرسکے۔ پنجاب میں ہر شعبہ سست رفتاری کا شکار ہے۔ تعلیم کے شعبہ کی مثال لیجیے۔ تحریک انصاف کا وعدہ تھا کہ وہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرے گی۔ تعلیم کے شعبہ میں انقلابی اصلاحات لائے گی۔اسکا بجٹ بڑھائے گی۔ یہ سب وعدے ہَوا ہوگئے۔ حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ اس مالی سال (جولائی 2020 تا جون 2021) میں تعلیم کا ترقیاتی بجٹ ساڑھے چونتیس ارب کا تھا۔پہلے آٹھ ماہ میں صرف سوا گیارہ ارب روپے یعنی ایک تہائی بجٹ خرچ کیا گیا۔تعلیم کا بجٹ تو کیا بڑھانا تھا جو تھوڑا بہت بجٹ مختص ہوتا ہے حکومت وہ بھی استعمال کرنے کی استعداد نہیں رکھتی۔گزشتہ اڑھائی برسوں میںپنجاب میںتعلیم کا ایک بھی قابلِ ذکر منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔صحت کے شعبہ میں صحت انشورنس کارڈ کا بہت شور مچایا جاتا ہے۔ لیکن جس سرکاری انشورنس کمپنی سے یہ کارڈ دینے کی بات چل رہی تھی افسر وں نے اُسے اتنا تنگ کیا کہ وہ معاہدہ کرنے سے بھاگ گئی۔ صحت کے اداروں کو چلانے کے لیے بنائی جانے والی ایک کمپنی میں عارضی اور صوابدیدی طور پرسربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اشتہار دیکر میرٹ پرکمپنی کا چیف ایگزیکٹو تک نہیں لگایا جاسکا۔ جبکہ وزیراعظم ہر تقریر میں میرٹ کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میںیہی سست رفتاری ہمیں وفاق کی سطح پر دکھائی دیتی ہے۔ اڑھائی برسوں میں سکھر سے حیدرآباد موٹروے منصوبہ پر کام کی ابتدا تک نہیں ہوسکی۔ ٹھیکہ تک نہیں دیاجاسکا۔ریلوے کی تجدید کا منصوبہ ایم ایل ون مسلسل کھٹائی میں پڑا ہے۔ اس کا بھی ٹھیکہ نہیں ہوا۔ کب کام شروع ہوگا‘ کب یہ مکمل ہوگا؟ وفاقی حکومت کچھ اور نہیںتو اسلام آباد شہر اور اسکے نواحات کو تو ماڈل علاقہ بناسکتی تھی۔اسلام ٓباد ملک کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔وفاقی حکومت کے پاس اتنے وسائل تو ہوں گے کہ اسے بہتر شہری سہولیات فرام کرسکے۔ اسلام آباد میں تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور علاج معالجہ کی سہولتیں اتنی بہتر بنادی جاتیں کہ وہ دوسرے علاقوں کے لیے ایک مثال بن جاتا۔حال یہ ہے کہ وفاقی دارلحکومت میں گھریلو استعمال کے پانی کی قلت ہے۔ معاملہ صرف وسائل کا نہیں بلکہ سیاسی ارادہ اور عزم کا ہے۔ بہت سے کام موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن سیاسی وجوہ پر اس پر عمل نہیں کیا کہ باقی پنجاب اسکے ہاتھ سے نکل جائے گا جہاں ن لیگ کی اکثریت ہے۔جنوبی پنجاب کے عوام کا ایک بڑا مسئلہ سرکاری ملازمتوں میںآبادی کے تناسب سے انکا جائز حق ہے۔ وفاقی حکومت کم سے کم جنوبی پنجاب کے اضلاع کے لیے ملازمتوں میں حصہ تو مقرر کرسکتی تھی جیسے اندرون سندھ کے لیے مختص ہے۔ اگر وہ اس کام کے لیے آئینی ترمیم لائے تو پیپلزپارٹی بھی اسکا ساتھ دے گی کیونکہ اس خطہ میں اسکا ووٹ بینک بھی ہے جسے وہ کھونا نہیں چاہے گی۔ حکومت کا زور اپوزیشن لیڈروں کے خلاف میڈیا میں پروپیگنڈہ پر ہے ۔ ٹھوس کاموں پر توجہ کم ہے۔ یہی حالت رہی تو اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کو بہت نقصان اُٹھانا پڑے گا۔