یحییٰ خان کو امریکہ اور چین کی طرف سے مدد نہ آنے پر دکھ تھا۔دوسری طرف چین پاکستان کے عسکری اور سیاسی رہنمائوں کی طرف سے معاملے کا سیاسی حل نکالے جانے میںتساہل پر اپنی جگہ سخت مایوس تھا۔ایک خیال ہے کہ 3دسمبر کواگر تمام محاذوں پر جنگ کا اعلان نہ کیا جاتا تو بھارت بین الاقوامی سرحد پار نہ کرتا اور یوں ممکن تھا کہ معاملے کا کوئی سیاسی حل نکل آتا۔سقوطِ ڈھاکہ سے قبل کلیدی دنوں کے اندربھٹو صاحب کے اقوامِ متحدہ میں طرزِعمل پر بھی کئی سوالیہ نشانات موجود ہیں۔ تاہم پاکستان کوعالمی حزیمت اور عسکری شکست سے بچانے کی بنیادی ذمہ داری بہرحال جنرل یحییٰ اور ان کے قریبی ساتھیوں کی ہی تھی ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو سیاسی حل مقصود بھی تھا؟ بالائی سطح پرکھیلے جانے والے کھیل سے قطع نظر،پاکستان آرمی کے افسروں اور جوانوں نے بے حد محدود وسائل اور انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود مشرقی پاکستان میں اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بے مثال جرات اوراستقامت کا مظاہر ہ کیا۔سقوطِ ڈھاکہ سے محض سات روز قبل بھارتی حملہ آور فوج کے بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کلیر کی طرف سے جمال پور گیریژن کے پاکستانی کمانڈر لیفٹینٹ کرنل سلطان احمدکو لکھا گیا رعونت بھرا خط اور عزم و حوصلے سے لبریز اس کا جواب آج بھی راولپنڈی کے آرمی میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔جنگ کے بعدخود فیلڈ مارشل سیم مانک شا نے اقرار کیا کہ پاکستان آرمی کی پیشہ ورانہ کارکردگی اپنی بیس سے ایک ہزار میل دور ہونے کے باوجود شانداررہی۔ جہاں ایک طرف پاکستان آرمی کی سینئر قیادت اندرونی و بیرونی سیاسی معاملات اور اس کے افسر اور جوان اندرونی خلفشارپر قابو پانے کی تگ ودو میں الجھے ہوئے تھے تواسی دوران خود مانک شا کے بیان کے مطابق انہیںآٹھ سے نو مہینے یکسوئی کے ساتھ مشرقی پاکستان پر حملے کی تیاری کے لئے دستیاب رہے۔مانک شا کے مطابق پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو مشرقی تھیٹر پر بھارت کو ایک کے مقابلے میں پندرہ کی برتری حاصل تھی۔بدقسمتی سے مگر جنگ کے خاتمے پر کوئی ’رنراَپ‘ نہیں ہوتا۔صرف فاتح ہوتا ہے۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ جنگ کی تاریخ فاتح فریق ہی لکھتا ہے۔چنانچہ مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد، پاکستان آرمی جیسی پروفیشنل فوج کو محاذِ جنگ پر شاندار پیشہ ورانہ کارکردگی کے باوجود سقوطِ ڈھاکہ جیسے المیے کے ساتھ ساتھ تیس لاکھ بنگالیوں کے قتلِ عام اور تین لاکھ بنگالی عورتوں کے ریپ کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایس ایس جی کے بریگیڈیر ریٹائرڈ یعسوب علی خان 1971ء میں ایک نوجوان کپتان کی حیثیت سے ڈھاکہ میں تعینات تھے۔ مارچ میںقومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا گیا تو صورت حال تیزی سے بگڑنے لگی۔بریگیڈیر یعسوب حالات کو قابو میں لانے کے لئے شورشیوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا حصہ تھے۔ بریگیڈیر یعسوب علی ہی نہیں ،سانحہ مشرقی پاکستان پر لکھنے والے اکثر مورخین کا خیال ہے کہ اس پُر آشوب دور میں مشرقی پاکستان کے اندر انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان آرمی کی کارکردگی ہر گزقابلِ رشک نہیں تھی ۔ تاہم پاکستان کے اندر بھی افواج ِ پاکستان کے وجود سے نفرت کرنے والا گروہ ’مافوق الفطرت‘ الزامات کو دہرانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پاکستان آرمی کے خلاف پراپیگنڈے کی نفی کے لئے نامور بنگالی مصنف شرمیلا بوس کی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ‘ کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے۔تاہم ایک اور بنگالی سکالرڈاکٹر عبدالمومن چوہدری نے’ Behind the Myth of 3 Million ‘ کے عنوان سے لندن سے شائع ہونے والی ایک مختصر مگر جامع کتاب میں محض اعداد و شمار کی مدد سے مبالغہ آرائی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔تاہم اس سب کے باوجود بنگالیوں سے متعلق اُس وقت کے ہمارے حکمرانوںکا طرزِ فکر کبھی بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیںرہا۔ ’بھٹو ڈائنسٹی‘ کے مصنف اوون بینٹ جانز کے مطابق ’یحییٰ اور بھٹو اس نکتے پر متفق تھے کہ بنگالی فوجی کارروائی کے سامنے کسی قسم کی مزاحمت کرنے کا مزاج نہیں رکھتے‘۔دوسری طرف بنگالیوں کے بارے میںڈھاکہ میں تعینات ایک سینئر عسکری عہدیدار کے مبینہ ’عزائم‘ کو بھی یہاں دہرانا ہرگزمناسب نہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب مارچ 1971 ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کئے جانے کے امکانات نظر آنے لگے تو غیر بنگالیوں، بالخصوص بہاریوں اور ان کے خاندانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا گیا تھا۔ آخری نتیجے میں’آپریشن سرچ لائٹ‘ سے قبل ،اس کے دوران اور اس کے بعد دونوں اطراف خوب خون بہایا گیا۔روح وجان پرلگے زخم چھیڑو تو آج بھی رسنے لگتے ہیں۔ گوجرانوالہ اور کھاریاں کی چھائونیوں میں نوجوان افسروں کے شدید ردعمل کے بعد جنرل گل حسن اور ایئر چیف مارشل رحیم خان کے ایماء پر جنرل یحییٰ اور ان کے ساتھیو ں کو ہٹا کر حکومت بھٹو صاحب کے حوالے کر دی گئی۔تاہم بہت جلد بھٹو صاحب اورچیف آف آرمی سٹاف کے درمیان تنائو کے آثار نظر آنے لگے۔ جنرل گل حسن پاکستان آرمی کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ادارے کو سیاسی معاملات سے دور لے جانے کی شعوری کوشش میںمصروف تھے۔بھٹو صاحب مگر فوج کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے پر مصر رہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت میں تنائو اس وقت عروج کو پہنچا جب کشمیر آپریشن میںاپنے سینئر افسروں سے بالا بالا سیاسی قیادت سے تعلقات استوار کرنے اور بعد ازاں خود وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کے جرم میں سزا پانے والے جنرل اکبر خان نے وزیرِ اعظم بھٹو کے مشیر سلامتی کی حیثیت سے پشاور میں پولیس کی شورش پر قابو پانے کیلئے فوجی دستوں کو براہِ راست ہدایات دینا شروع کر دیں۔نتیجے میںکسی ’جمہوری ریاست ‘کی تاریخ میں پہلی باردیکھا گیا کہ کسی وزیرِ اعظم نے اپنے آرمی چیف اور ایئر چیف کو ایوانِ صدر بلا کرحبس بے جا میںرکھتے ہوئے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔بعد ازاں دونوں کمانڈروں کو ایک کار میں ڈال کر جبراََ لاہور روانہ کردیاگیا۔بنگلہ دیش میں’بچرآف بنگال‘ کے نام سے جانے جانے والے جنرل ٹکا خان نئے آرمی چیف مقرر ہوئے۔اوریانا فلاسی نے بھٹو صاحب سے اس بابت سوال کیا توجواب ملا،’ٹکا خان نے ایک پیشہ ور سولجر کا کردار ادا کیا تھا‘۔ جنرل ٹکا خان کے بعد جنرل ضیاء الحق نئے آرمی چیف تعینات کئے گئے۔ شجاع نواز کے مطابق ’بھٹو صاحب جنرل ضیاء کو اکثرموقع بے موقع تضحیک کا نشانہ بناتے‘۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی شخصیت کے مخصوص پہلوئوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہی بھٹو صاحب نے انہیں ساتویں نمبر سے اُٹھا کر آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ سٹیفن پی کوہن نے پاکستان آرمی کو جن تین نسلوں میںتقسیم کیا ہے،ان میں سے تیسری یعنی ’پاکستانی نسل ‘ سقوطِ ڈھاکہ کے بعدبھٹو صاحب کے دور سے لے کر سال 1982ء تک پروان چڑھی۔ اوون بینٹ جانز تاہم پاکستان آرمی کی چوتھی نسل کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسے وہ ’ضیاء الحق جنریشن‘ کا نام دیتے ہیں۔(جاری ہے)