اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔بقول سنجے کاک اگر غور سے دیکھا جائے کشمیر فائلز فلم ایک بڑے ایجنڈے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اس فلم کے آخر میں اس کے مرکزی کردار، کرشنا کی طرف سے دیے گئے ایک طویل مونالوگ میں بتایا جاتا ہے کہ بھارت کی تمام عظمت کشمیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور یہیں پر قدیم زمانے میں ہر چیز پروان چڑھی ؎۔ مسلم سلاطین کے دور کو ایک تاریک دور بتایا گیا ہے اور کشمیر کا وطن ، نہ صرف کشمیری پنڈتوں بلکہ تمام ہندوؤں کے لیے مقدس ہے۔ یعنی اس خطہ کو ہندوتو کے فلسفہ کے منبع طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم ایک تہذیبی پرجیکٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو کشمیری آبادی کی انفرادیت اور تشخص کو کچلنے اور چھینے کیلئے شروع کیا گیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے اگرتیس سالوں میں ڈھائی سو افراد کا قتل نسل کشی یا ہولو کاسٹ ہے، تو اسی مدت کے دوران ایک لاکھ کشمیری یا سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق 40ہزار مسلمانوں کے ہلاکت کس زمرے میں ڈالی جاسکتی ہے؟جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں 1500 کے قریب غیر پنڈت ہندو ، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان خطوں میں آبادی کا کوئی انخلا کیوں نہیں ہوا؟ 1947میں جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی ، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فسادات میں چند ماہ کے اندر دو لاکھ37ہزار افراد ہلاک ہوئے۔جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردارادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجہ کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ خود اس قتل عام کی نگرانی کررہے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ انہی دنوں اس کے برعکس وادی کشمیر میں عام کشمیر ی مسلمان پنڈتوں کو بچانے کیلئے ایک ڈھال بنے ہوئے تھے۔ ویسے کشمیر میں ہندو اور مسلمان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ الگ الگ بستیوں کے بجائے دیہاتوں و قصبوں میں دونوں فرقے ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی کی خانقاہوں ، شیخ نورالدین ولی اور سرینگر شہر کے قلب میں کوہ ماراں پر شیخ حمزمخدوم کی درگاہوں پر کشمیری پنڈتوں کا بھی جم غفیر نظر آتا تھا۔ کشمیر ی کی معروف شاعرہ لل دید ، تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو تھی یا مسلمان۔ اس کا پورا کلام ہی وحدانیت پر مشتمل ہے۔ کشمیر میں اسلام کی آمد 14ویں صدی میں اسوقت ہوئی،جب بدھ مت اور برہمنوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری تھی۔ اس دوران جب بلبل شاہ اور بعد میںمیر سید علی ہمدانی نے اسلام کی تبلیغ کی، تو عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اسکو لبیک کہا۔ یہ شاید واحد خطہ ہوگا، جہاں ہندوئوں کی اعلیٰ ذاتوں نے بھی جوق در جوق دائرہ اسلام میں پناہ لی لیکن برہمنوں کا ایک قلیل طبقہ بدستور اپنے دھرم پر ڈٹا رہا۔ اسی صدی میں جب شہمیری خاندان کے سلطان سکندر کے وقت ایک کشمیری برہمن سہہ بٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیف الدین رکھا، تو اسنے کشمیری برہمنوں کے اقتدار کو نشانہ بنا کر ان کو تختہ مشق بنایا، جس کی وجہ سے اکثر پنڈتوں نے ہجرت کی۔ مگر سلطان سکندر کے فرزند زین العابدین جنہیں بڈشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی اس پالیسی کو ختم کرواکے، ان کشمیری پنڈتوں کو واپس لینے کیلئے وفود بھیجے اور ان کو دربار میں مراعات اور عہدے بخشے۔ اپنی خود نوشت سوانح حیات آتش چنار میں شیخ عبداللہ رقم طراز ہیں کہ کشمیر پنڈتوں کے اقلیتی کمپلکس کو ابھارنے میں مغل بادشاہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ کشمیری مسلمان امراء سے خائف رہتے تھے۔ مغل فرمانروا اکبر نے آدتیہ بٹ کو کشمیر کی جاگیروں کی نگہداشت پر مقرر کیا۔ کشمیر کے شمالی و جنوبی خطوں یعنی کمراز و مراز کے گورنر کشمیری پنڈت بنائے گئے۔ معروف مورخ جادو ناتھ سورکار لکھتے ہیں، کہ مغل دور میں بہت کم کشمیر ی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ امور سلطنت میں مغل حکمران ، کشمیری پنڈتوں پر زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ ملکہ نو ر جہاں کی ذاتی محافظ دستے کا سربراہ میرو پنڈت ایک کشمیری برہمن تھا۔ پنڈتوں کی بالادستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری رہی۔ اس کے دور میں مہیش شنکر داس پنڈت کا طوطی بولتا تھا۔ افغانوں کا دو ر حکومت تو کشمیر میں ظلم و ستم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر ان کے دربار میں بھی کشمیری پنڈت ہی حاوی تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ حاجی کریم داد خان کا پیش کار پنڈت دلا رام تھا۔ افغان دور میں تو قبائلی علاقوں میں کشمیر ی پنڈت نند رام نکوکے نام پر سکے ڈھالے گئے تھے، جو غالباً 1810تک جاری تھے۔ مورخ جیالال کلم کا کہنا ہے کہ افغان دور میں کشمیری پنڈت حکومت پر چھائے رہے اور سیاسی طاقت ان کے ہاتھوں میں تھی۔ جب ایک افغان صوبیدار عطا محمد خان نے اس کیخلاف بغاوت کی اور کشمیری مسلمانوں کو بھی سیاسی طاقت میں حصہ دینے کی سعی کی، تو کشمیری پنڈت امراء اس کے خلاف کابل پہنچے اور اپنے ساتھ ایک بڑا لشکر لا کر اسکو کچل دیا۔ افغانوں کے زوال کے بعد پنڈت بیربل در نے سکھوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی۔ مہانند جو در ،سکھ دربار کا خاصا معتمد اور حاکم تھا۔ جب سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ، تو ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے بیربل کاک کے بیٹے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا۔جس نے شال بافی صنعت پر ٹیکس لگا کر ، کشمیری کاریگروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ انگریز سرویر جنرل والٹر لارنس ، جو ان دنوں کشمیر میں تھے، لکھتے ہیں کہ کشمیر کی ساری سیاسی قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ’’مسلمان کاشت کار یا مزدور ہے اور اس کو برہمنوں کے آرام و آسائش کیلئے بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے۔ــ‘‘مگر جب اسی دو ر میں کشمیری پنڈتوں کو پہلی بار پنجاب سے آئے انگریزی جاننے والے ہندو افسران سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا، تو انہوں نے اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کیا، جس کا مقصد تھا کہ صرف ریاستی باشندوں کے نوکری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ چونکہ مسلمان ان دنوں ان پڑھ تھے، اور ان کا سرکاری نوکریوں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا، اسلئے ان کے ساتھ کسی مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو ان ہی پنڈتوں نے اسی اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خلاف زمیں و آسمان ایک کر دئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا، تو پنڈتوں کا ایک بڑا حصہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اگر اس مسئلہ کو بھارت کی عینک یا مفادات کے ذریعے بھی دیکھا جائے، تو کشمیری پنڈت ، کشمیر کی اکثریتی آبادی اور نئی دہلی کے درمیان ایک مضبوط پل کا بھی کام کرسکتے تھے۔ مگر بقول شیخ عبداللہ ان میں سے اکثر کو حکمرانوں کی خدمت اور اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کرنے میں ہی سکون ملتا رہا ہے۔ جو ان کو اپنے وطن سے بیگانہ کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔وقت ہے کہ پنڈتوں کو اپنا دامن دیکھ لینا چاہیے کہ آخر دونوں فرقوں کے بیچ نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟ (ختم شد)